بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹینکی میں کوا گر کر مر جانے کی صورت میں پانی کا حکم


سوال

اگر پانی والی ٹینکی میں کوا گر کر مر جائے تو   ٹینکی کا پانی پاک ہو گایا ناپاک؟

جواب

اگر مذکورہ ٹینکی 225 اسکوائر فٹ سے کم ہے تو اس میں کوےکے گرنے اور مرنے سے اس ٹينکی کا پانی ناپاک  ہوجائے  گا،  اور اس ٹینکی کوپاک کرنے کے لئے اگرکوے کے اجزا پانی میں باقی ہوں تو انہیں نکالنا ضروری ہوگا، جب تک وہ اجزا موجود ہوں وہ پاک نہیں ہوگی، اس لئے پہلےمرے ہوئے کوےیااس کے اجزاء کو نکالا جائے اور ٹینکی کو خالی کرکے تین مرتبہ دھویا جائے، اور ہر مرتبہ اس کے پانی کو نکالا جائے اور اگر یہ طریقہ  مشکل ہو تو اس ٹینکی میں ایک جانب سے پانی داخل کیا جائے اوردوسری جانب سے  بہتا چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ ٹینکی کے پانی سے بدبو ختم ہوجائے اور اس کا ذائقہ معمول کے مطابق ہوجائے، ایسا کرنے سے ٹینکی پاک ہو جائے گی۔

اگرکوےکے گر کر مر نے کا وقت معلوم ہوتو اس وقت سے جو نمازیں اس پانی سے وضو کرکے پڑھی گئی ہوں ان نمازوں کا اعادہ لازم ہوگا اور اگر وقت معلوم نہ ہوتوصرف مرنے کی صورت میں جب کہ پھولا پھٹا نہ ہو ایک دن ایک رات کی نمازوں کا اوراگر پھول یا پھٹ گیا ہوتو  تین دن تین رات کی نمازوں کا لوٹانا ضروری ہوگا،اور اتنے عرصے میں اس پانی سے جو کپڑے وغیرہ دھوئے انہیں دوبارہ پاک کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(إذا وقعت نجاسة) ليست بحيوان ولو مخففة أو قطرة بول أو دم أو ذنب فأرة لم يشمع، فلو شمع ففيه ما في الفأرة (في بئر دون القدر الكثير) علىما مر، ولا عبرة للعمق على المعتمد (أو مات فيها) أو خارجها وألقي فيها ولو فأرة يابسة على المعتمد إلا الشهيد النظيف والمسلم المغسول، أما الكافر فينجسها مطلقا كسقط (حيوان دموي) غير مائي لما مر (وانتفخ) أو تمعط (أو تفسخ) ....(فإن أخرج الحيوان غير منتفخ ولا متفسخ) ولا متمعط (فإن) كان (كآدمي) ... (نزح كله، وإن) كان (كحمامة) وهرة (نزح أربعون من الدلاء) وجوبا إلى ستين ندبا (وإن) كان (كعصفور) وفأرة (فعشرون) إلى ثلاثين كما مر، وهذا يعم المعين وغيرها ... (ويحكم بنجاستها) مغلظة (من وقت الوقوع إن علم، وإلا فمذ يوم وليلة إن لم ينتفخ ولم يتفسخ) ... (ومذ ثلاثة أيام) بلياليها (إن انتفخ أو تفسخ) استحسانا."

(كتاب الطهارة،باب المياه،فصل في البئر،(1/ 219،218،211) ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

" ثم الحيوان إذا مات في المائع القليل فلا يخلو إما إن كان له دم سائل أو لم يكن، ولا يخلو إما أن يكون بريا أو مائيا، ولا يخلو إما إن مات في الماء أو في غير الماء .... وإن كان له دم سائل فإن كان بريا ينجس بالموت وينجس المائع الذي يموت فيه، سواء كان ماء أو غيره، وسواء مات في المائع أو في غيره."

(كتاب الطهارة،فصل في بيان المقدار الذي يصير به المحل نجسا،1/ 78،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں