بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت میں نہ بیٹھنے سے طلاق کالعدم نہیں ہوتی


سوال

میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی  ، اس کے بعد اس نے عدت میرے گھر میں نہیں گزاری، عدت میں وہ بینک کی ملازمت کرتی رہی، اس دوران فون پر بات ہوتی رہی، اور رجوع کا مسئلہ چلتا رہا، پھر میں نے اسے ہاتھ  پکڑ کر کار میں بٹھایا، اور گھر لے گیا، اور سامنے بیٹھ کرباتیں بھی کیں، کیا اس کے بعد بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

آپ لوگوں کا فتوی ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزارتی ، تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، تو انہوں نے عدت گھر پر نہیں گزاری، بلکہ عدت میں ملازمت کی ہے۔

جواب

اس سے قبل بھی آپ کے طلاق سے متعلق سوال کا جواب (فتوی نمبر :144209201294 میں )دیا گیا ہے کہ :

" ...اگر آپ نے  واقعتًا تین دفعہ طلاق کے الفاظ کہے یا ایک ہی جملے میں تین کا عدد استعمال کیا ہے تو اس صورت میں آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، صریح الفاظ میں طلاق دینے کے بعد شوہر یا بیوی کے قبول نہ کرنے اور عدت نہ گزارنے سے حکم پر فرق نہیں پڑتا،  چناں چہ اگر یہی صورت ہے تو آپ دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے اور  دونوں کا ساتھ رہنا اب جائز نہیں ہے، نہ رجوع کی اجازت ہے، نہ ہی دوبارہ نکاح کی کوئی صورت ہے، الا یہ کہ وہ عدت گزار کر از خود کہیں نکاح کرلے، اور دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرنے کے بعد از خود اسے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے اور اس کی عدت بھی گزر جائے تو آپ دونوں کے لیے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا جائز ہوگا۔" 

لہذا اب  تین طلاقوں کے بعد چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ)کے نزدیک شوہر کے لیے رجوع کی گنجائش نہیں ہے،نیز تین طلاق دیے جانے کے بعد آپس میں گفتگو کرنا، آمنے سامنے بیٹھنا بھی درست نہیں، اس لیے کہ اب دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور اس گفتگو سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ :"آپ لوگوں کا فتوی ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزارتی ، تو طلاق واقع نہیں ہوتی "،ہمارے ہاں سے ایسا کوئی فتوی جاری نہیں ہوا، نہ ہی آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں ایسی کوئی عبارت موجو دہے، بلکہ آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں بھی صراحتاً یہ لکھا گیا ہے کہ:گھر پر عدت  نہ گزارنے سے طلاق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ عورت کو عدت میں بلاضرورت گھر سے باہر جانا جائز نہیں ، تاہم اگر کوئی عورت شریعت کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتی ہے،تو اس سے طلاق کالعدم نہیں ہوتی،وہ عورت شرعی حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ گار ہوتی ہے۔

اگر آپ کو سوال وجواب سے اس مسئلہ کا سمجھنا ممکن نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ براہ راست دارالافتاء تشریف لاکر اس مسئلہ کو سمجھ لیجیے۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144301200180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں