بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے میاں بیوی کا ساتھ رہنا


سوال

میرے کزن  نے اپنی بیوی کو چھ مہینہ پہلے دو طلاقیں دی تھیں ان الفاظ کے ساتھ کہ ”میں نے طلاق دی“ اس کے بعد عدت کے اندر  رجوع کرلیا تھا، پھر چھ مہینہ بعد  تیسری طلاق بھی دے دی، ان کے چار بچے ہیں،  سب سے بڑے بچے کی عمر سات سال ہے، اب میرا کزن اور  اس کی بیوی اور دونوں کے گھروالے چاہتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کی وجہ سے دونوں ساتھ رہیں، اور لڑکی بھی دوسری جگہ شادی کرنا نہیں چاہتی اور میرا  کزن بھی حلالہ کروانا نہیں چاہتا، تو کیا اس صورت میں  حلالہ کے بغیر دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں جب سائل کے کزن نے اپنی بیوی کو  دو طلاق دے کر رجوع کرنے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی ہے تو دونوں  کا  نکاح ختم ہوگیا ہے،بیوی ، شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، تین  طلاقیں واقع ہونے   کے بعد  سائل کے کزن کے لیے   رجوع کرنا یا دوبارہ    نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اور اب دونوں  ایک دوسرے کے لیے اجنبی  ہوگئے ہیں، جس طرح دیگر اجنبی مر دوعورت کا ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کا بھی آپس میں ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے،نیز تین طلاقیں دینے کے بعد مطلّقہ بیوی کو ساتھ رکھناسخت گناہ اورحرام ہےاور دوبارہ اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنا  صریح بدکاری ہے ، اس سے  بچنا لازم اور ضروری ہے۔

 ہاں اگر مطلّقہ     عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ  دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا  عورت  خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے  تو پھر عدت گزار کر پہلے شوہر    سےدوبارہ  نکاح کرنا جائز ہوگا۔

المعجم الكبیرللطبرانی میں ہے:

"عن  ابن مسعود : قلت: يا رسول الله، هل للساعة من علم تعرف به الساعة؟ فقال لي: «يا ابن مسعود، إن للساعة أعلامًا، وإن للساعة أشراطًا، ألا وإن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكون الولد غيظًا، وأن يكون المطر قيظًا، وأن تفيض الأشرار فيضًا، ..... يا ابن مسعود، إن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنى». قلت: أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم، قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: «نعم» ، قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: «يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما»".

(5/ 161، 162،  دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة"

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں