بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہنے کا حکم


سوال

زید نے اپنی بیوی کو جو کہ حاملہ تھی،  میسج کے ذریعے ”طلاق طلاق طلاق ہستی “ (ہے) لکھ کر بھیج دیا،  پھر آپس میں خود سے ایجاب اور قبول کر کے ازدواجی زندگی کو برقرار رکھا،  اس واقعہ کو چھ سال گزر گئے اور زید کے دو بیٹے ہیں،  ایک بیٹا طلاق کے وقت حمل میں تھا،  جب کہ دوسرا بعد میں پیدا ہوگیا،  اب لفظ ”طلاق طلاق طلاق ہستی“  جو لکھ کر ارسال کیا تھا، اس سے  کتنی طلاقیں  ہوں گی،  اور ان کا ایجاب و قبول معتبر ہوگا یا نہیں؟ اگر معتبر نہیں ہے تو ان  پرجو چھ سال گزر گئے ہیں،  اب شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید نے اپنی بیوی کو جو چھ سال پہلے میسج میں یہ لکھ کر  بھیجا کہ : ”طلاق طلاق طلاق ہستی“ (یعنی :ہے) تو اسی وقت اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوکر   دونوں کا نکاح ختم ہوگیا تھا، اس کے بعد شوہر کے لیے رجوع کرنا یا دوبارہ اس سے نکاح کرنا  جائز نہیں تھا،  تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی  کا ساتھ رہنا اور  دوبارہ  تعلق قائم کرنا، ناجائز اور حرام ہے،   دونوں پر خوب توبہ و استغفار لازم ہے، اگر ابھی  بھی  دونوں  ساتھ ہیں تو   فورًا علیحدگی اختیار کریں،  ایک حدیثِ مبارک  میں آتا ہے:

”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:  میں نے آپ ﷺ سے قیامت کی علامات کا پوچھا تو آپ ﷺ نے قیامت کی بعض علامات بتلائیں... اور اس میں یہ بھی ذکر کیا کہ اے ابن مسعود ! قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ زنا کی اولاد بڑھ جائے گی، حدیث روایت کرنے والے فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن مسعود سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا: وہ مسلمان ہوں گے، میں نے کہا: کیا قرآن مجید بھی ان کے پاس ہوگا؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، تو میں نے کہا: یہ کس طرح ہوگا؟ تو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے گا، پھر اس کی طلاق کا انکار کرے گا، اور پھر اس کے ساتھ ہم بستری کرے گا، تو جب تک وہ ایسا کرتے رہیں وہ دونوں زنا کرنے والے ہیں۔“

 ہاں اگر مطلّقہ     عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ  دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود  طلاق دے دے یا  عورت  خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے  تو پھر عدت گزار کر پہلے شوہر    سےدوبارہ  نکاح کرنا جائز ہوگا۔

باقی شوہر کے تین طلاق دینے کے بعد، مطلّقہ کے دوسرے شوہر سے نکاح کے بغیر ہی  جو شوہر نے اس سے دوبارہ نکاح کیا ہے،  تو یہ نکاح جائز نہیں تھا، البتہ اس سے جو اولاد ہوچکی ہے، ان کا  نسب  ثابت ہوگا۔

المعجم الكبیرللطبرانی میں ہے:

"عن  ابن مسعود : قلت: يا رسول الله، هل للساعة من علم تعرف به الساعة؟ فقال لي: «يا ابن مسعود، إن للساعة أعلامًا، وإن للساعة أشراطًا، ألا وإن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكون الولد غيظًا، وأن يكون المطر قيظًا، وأن تفيض الأشرار فيضًا، ..... يا ابن مسعود، إن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنى». قلت: أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم، قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: «نعم» ، قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: «يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما»".

(5/ 161، 162،  دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة".

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره فجاءت منه بولد ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس الناصري."

(1 / 540،كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا وطئت المعتدة بشبهة) ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى)؛ لتجدد السبب.

 (قوله: وإذا وطئت المعتدة) أي من طلاق، أو غيره هو منتقى، وكذا المنكوحة إذا وطئت بشبهة ثم طلقها زوجها كان عليها عدة أخرى وتداخلتا كما مر في الفتح وغيره (قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لا تجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثاً ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكراً طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث."

 (3/ 518،كتاب الطلاق، باب العدة، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں