کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو اس کا کیا حکم ہے؟
اگر کوئی عاقل ، بالغ شخص بیداری کی حالت میں اپنی مدخول بہا بیوی کو تین مرتبہ طلاق دے خواہ ایک مجلس میں یا متفرق مجلس میں تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ، اگرچہ بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینا ناجائز اور گناہ ہے، تاہم تین طلاق دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور دونوں نکاح ختم ہوجاتا ہے،بیوی، شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، تین طلاقیں دینے کے بعد شوہر کے لیے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔مطلّقہ اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل کی صورت میں بچہ کی ولادت تک ) مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
البتہ اگر مطلّقہ عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے یا عورت خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو پھر اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر سےدوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
" وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.
(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم."
( 3/ 230، كتاب الطلاق، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(3/ 187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408102155
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن