ٹیلی گرام ایپ پر مختلف قسم کی ارننگ گیم چل رہی ہیں جن پر روزنہ کنیکٹ کرکےاور ٹیپ کرکے کوائن جمع کیے جاتے ہیں اور تین سے چار ماہ بعد ایئر ڈراپ دیا جاتا ہے اور اس کو ٹون کیپر یا باءنانس پر کوئن کو ڈالر میں تبدیل کیا جاتا ہےاس کے بعد ڈالر کو پاکستان کرنسی میں حاصل کیا جاتا ہے کیا یہ ارننگ جائز ہے یا نہیں اور جو اس طریقہ سے کمائی حاصل کی ہے اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں گیم کھیل کر پیسے کمانا نا بہت سی شرعی وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ گیم کھیلنا کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ جس کے بدلے گیم کھیلنے والا شرعاً اجرت کا مستحق ہو۔
2۔ کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں دینی یا دنیوی نفع ہو، وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر نہ ہوں،کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو، کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو، اگر ان شرائط کا لحاظ رکھ کر کوئی گیم کھیلا جائے، تو وہ جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے اور سوال میں مذکور گیم بھی اسی قبیل سے ہے۔
3۔کوئی بھی ایسا عمل جس کے بدلے عمل کرنے والا اجرت کا مستحق ہوتا ہو، اس کی اجرت کا متعین ہونا ضروری ہے اور عمل کا متعین ہونا بھی ضروری ہے، اول تو سوال میں ذکر کیا گیا گیم کھیلناجائز ہی نہیں ہے، بالفرض اگر یہ گیم جائز بھی ہوتا، تو اجرت اور عمل کے متعین نہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہوتا۔
4۔ مذکورہ گیم میں جو کوائن ہے، اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے، جس کے بدلے پیسے کا استحقاق ہو، لہٰذا اس کوائن کے بدلے میں ڈالر لینا یا کوئی بھی کرنسی لینا صحیح نہیں ہے۔
روح المعانی میں ہے:
"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."
(تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورة لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)
تکملة فتح الملهم میں ہے:
"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."
(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط: دارالعلوم کراچی)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الكشف الكبير المال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجةوالمالية إنما ثبت بتمول الناس كافة أو بتقوم البعض الخ."
(کتاب البیع،ج:5،ص:277،ط:دار الکتاب الاسلامی)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102168
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن