بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیلیفون پر نکاح اور کمپنی کے نمائندہ کو گواہ شمار کرنا


سوال

کیا لڑکا لڑکی کے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کو قبول کرلینے سے نکاح ہوجاتا؟ کیا ایسا سوچنا درست ہے کے چوں کہ ہماری باتیں ٹیلیفون کمپنی اور دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ سنتے ہوں گے تو کیا وہ شرعی گواہ مانے جائیں گے؟ کیا صرف ٹیلیفون پر یہ کہنا کہ ’’شادی تو ہماری ہوگئی ہے، صرف کاغذی کار روائی نہیں ہوئی‘‘ سے نکاح منعقد ہوگا؟ یا اگر پورا نکاح بھی صرف لڑکا لڑکی خود کرلیں ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے اور ٹیلیفون کمپنی والوں کو گواہ مان لیں تو کیا نکاح منعقد ہو جائے گا؟

جواب

نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا  ایک ہونا  اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا  خود موجود ہونا  یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے،  نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ  موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے،   ٹیلی فون، اور انٹرنیٹ کے ذریعہ نکاح میں  مجلس کی شرط نہیں پائی جاتی؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکماً، کیوں کہ وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین اور گواہوں  کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں  نکاح منعقد نہیں ہوتا، اور کمپنی کے نمائندہ کو گواہ نہیں مانا جاسکتا ہے، اس لیے کہ اگر بالفرض ان کا ہر ہر کال کو سننا تسلیم بھی کرلیا جائے، تب بھی  وہ نکاح کی مجلس میں موجود نہیں شمار ہوں گے۔

البتہ اگر ٹیلیفون کے ذریعہ صرف لڑکا  یا لڑکی  رابطہ میں ہوں  اور کسی جگہ عقدِ نکاح کی مجلس منعقد کی جائے اور لڑکا اور لڑکی کے  وکیل اور گواہ عقدِ نکاح کی مجلس میں موجود  ہوں  یا لڑکا جس مجلس میں ہو اسی مجلس میں لڑکی کا وکیل اور گواہ بھی ہوں اور  عاقدین (لڑکا اور لڑکی کے وکیل یا لڑکا خود اور لڑکی کے وکیل) نے دو شرعی گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کیا  تو  ایسی صورت میں نکاح منقعد ہوجائے گا۔

وفي الدر المختار مع رد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً". (کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)

وفیه أیضاً:

’’ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب، جوهرة. وفي الرد: وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو‘‘. (3/246، کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابة، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں