بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلباء کو سزا کے طور پر مارنا کیسا ہے؟


سوال

مدرسے کے بچوں کو مارنا استاد کیلئے شرعاً کیسا ہے؟

جواب

بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے، بے جا مار پیٹ   سے بچے  ضدی اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں،پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا،  اور زیادہ مارنا اور سختی کرنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے،  ایک تو یہ کہ اس سے  بچہ کے  اعضاءکم زور ہوجاتے ہیں، دوسرایہ کہ ڈرکے مارے سارا  پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں،تیسرایہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےکا طریقہ زیادہ سود مند ہےاور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہوتو تدریجاً سزا دے مثلاً: (1) ملامت کرنا (2) ڈانٹنا، (3) معمولی کان کھینچنا،(4)  ہاتھ سے مارنا وغیرہ۔

اگر   تعلیم وتربیت کی غرض سے  کبھی سزا دینے کی ضرورت   پڑ جائے تو اس کے لیے  درج ذیل شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1۔۔   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔۔ ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔ (نمبر 9، 10 اور 11 میں اس کی وضاحت آرہی ہے)

4۔۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5۔۔ بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6۔۔  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7۔۔ ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بچہ بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8۔۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔

9۔۔  سر، چہرے اور ستر کے حصے پر نہ مارے۔

10۔۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

11۔۔    ایسی سزا  جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا دل پر اس کا اثر ہو ، شرعاً جائز نہیں ہے۔   

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه؛ لأن المأمور يضربه نيابةً عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات، ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل، وأقره الشارح، قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات". 

( کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، فروع، ج: 6، صفحہ: 430، ط: ایچ، ایم سعید)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

" للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتاداً للتعليم كمًّا وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث،  روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصاً. ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لايعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيراً لايعقل فلايضربه". 

(  تعلیم وتعلم ، الضرب للتعلیم، ج: 13، صفحه: 13، ط: دارالسلاسل، کویت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں