بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تلاوت کے آغاز کے علاوہ میں تعوذ پڑھنے کا حکم


سوال

"أعوذ باللّٰه"  پڑھنا  قرآنِ کریم کے  ساتھ  خاص ہے، جیسا کہ حضرات فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے، تو کیا تعوذ  صرف تلاوتِ  قرآنِ  پاک کے  وقت  پڑھی جائے  گی، جب کہ دوسرے مواقع  پر بھی اس کے پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ،مثلاً:غصہ کے وقت یا کتے وغیرہ کے بھونکنے کے وقت۔

جواب

تعوذ یعنی "أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم"قرآنِ کریم کا جز  نہیں ، البتہ فقہاءِ کرام  نے تلاوت کے آداب سے متعلق یہ لکھا ہے کہ  تلاوت کے آغاز میں تعوذ  اور  تسمیہ دونوں پڑھے جائیں۔ ابتداءِ تلاوت میں تعوذ کے پڑھنے کو مسنون قرار دیا گیا ہے، اور قرآنِ  کریم میں بھی  اس  کی ترغیب دی گئی ہے،یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت کا آغاز تعوذ سے کیا جائے، قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب  یا کسی  شے کے پڑھنے کا آغاز تعوذ سے نہیں کرنا چاہیے، خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک  کی تلاوت کے آغاز کے علاوہ کسی بات، بیان، یا تحریر وغیرہ کے آغاز میں تعوذ نہیں ہے۔

باقی دیگر کئی کاموں میں رسول اللہ  ﷺ سے تعوذ کا پڑھنا نیز پڑھنے کا حکم دینا احادیث میں ثابت ہے، لہذا دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 329):

" و قيدنا بقراءة القرآن للإشارة إلى أن التلميذ لايتعوذ إذا قرأ على أستاذه، كما نقله في الذخيرة، و ظاهره أن الاستعاذة لم تشرع إلا عند قراءة القرآن أو في الصلاة."

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (2 / 23):

"و الثاني: أن قصده كان تعليم السامعين أنه ينبغي للمصلي أن يتعوذ، و كان عطاء يقول: الاستعاذة واجبة عند قراءة القرآن في الصلاة و غيرها، وإنه مخالف لإجماع السلف و السلف كانوا مجمعين على أنه سنّة. و هذا الذي ذكرنا في الإمام والمنفرد."

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 489):

" قوله: (و لايتعوذ إلخ) محترز قوله: لقراءة قال في البحر: و قيد بقراءة القرآن للإشارة إلى أن التلميذ إذا قرأ على أستاذه كما نقله في الذخيرة، و ظاهره أنّ الاستعاذة لم تشرع إلا عند قراءة القرآن أو في الصلاة و فيه نظر ظاهر اهـ  قال في النهر: و أقول: ليس ما في الذخيرة في المشروعية و عدمها بل في الاستنان و عدمه اهـ أي فتسن لقراءة القرآن فقط وإن كانت تشرع في غيرها في جميع ما يخشى فيه الوسوسة وإلى هذا أشار الشارح بقوله: أي لايسن، لكن في هذا الجواب نظر فإنها تسن قبل دخول الخلاء لكن بلفظ أعوذ بالله من الخبث والخبائث ، تأمل."

-فتاوی محمودیہ، 5/75،ط:فاروقیہ۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144212202216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں