بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تلاوت کے دوران اذان ہوجائے تو کیا کریں؟


سوال

مسجد میں دورانِ تلاوت اگر اذان شروع ہوجائے تو کیا  تلاوت جاری رکھی جائے یا قرآن بند کرکے اذان کا جواب دیا جائے؟

جواب

تلاوت جاری ہو اور اذان ہونے لگے تو دونوں صورتیں جائز ہیں، چاہے تلاوت جاری رکھے، چاہے بند کر کے اذان کا جواب دے، تلاوت جاری رکھتے ہوئے زبان سے اذان کا جواب نہ دینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے، اور تلاوت بند کر کے اذان کا جواب دینے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے، البتہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ تلاوت بند کرکے اذان کا جواب دے؛ اس لیے کہ تلاوت بعد میں دوبارہ ہوسکتی ہے، مگر اذان کے جواب  کا موقع پھر نہیں ملے گا۔

اور اگر پہلے سے تلاوت شروع نہ کی ہو اور اذان شروع ہوجائے تو اذان کا جواب دینا چاہیے، اذان مکمل ہونے کے بعد تلاوت شروع کی جائے۔

امدادالاحکام میں ہے:
’’مسجد میں تلاوت کرنے والے کو جواب اذان افضل ہے یا تلاوت؟
سوال: تالی القرآن فی المسجد کوخواہ عامی ہو یا عالم جواب الاذان افضل ہے یا مشغولی تلاوت؟
الجواب: جواب اذان افضل ہے۔

  فی الدرالمختار:

"(ویجب) وجوبًا، و قال الحلواني: ندبًا، والواجب بالقدم (من سمع الأذان) ولوجنبًا لاحائضًا ونفساء وسامع خطبته وفي صلاة جنازة وجماع ومستراح و أکل وتعلیم علم وتعلمه، بخلاف قرآن".

وقال الشامي تحت (قوله: بخلاف قراٰن): لأنه لایفوت، جوهره، ولعله؛ لأن تکرار القراءة إنما هوللأجر، فلایفوت بالإجابة بخلاف التعلم، فعلی هذا لویقرأ تعلیمًا أو تعلّمًا لایقع، سائحاني". (ص۴۱۱ج ۱)

وقال الشامي أیضًا ص ۴۱۴ج ۱:

"(ولوبمسجدلا) أي لایجب قطعها بالمعنی الذي ذکرناه آنفًا، فلاینافي ماقدمه من أن إجابة اللسان مندوبة عندالحلواني".

وفي الصفحة المذکورة أیضًا بعدنقل حدیث عن الطحاوي:

"فهذه قرینة صارفة للأمرعن الوجوب، وبه تأید ماصرح به جماعة من أصحابنا من عدم وجوب الإجابة باللسان، و أنها مستحبة، و هذا ظاهر في ترجیح قول الحلواني، وعلیه مشی في الخانیة والفیض ... الخ، ۲۱ ذی الحجة ۴۳هـ". (1/421مکتبه دارالعلوم کراچی)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"اثناء تلاوت اذان شروع ہوجائے تو کیا حکم ہے ؟
(سوال ۱۳۲) قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہو اور اس اثنا  میں اذان شروع ہوجائے  تو تلاوت کرتا رہے یا اذان کا جواب دے ؟  بینوا توجروا۔
(الجواب)مسجد میں ہوتو تلاوت جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ مکان میں ہو تو تلاوت موقوف کر کے اذان کا جواب دینا چاہیے، البتہ دوسرے محلہ کی مسجد کی اذان ہو تو مکان میں بھی تلاوت جاری رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

"(وإذا سمع المسنون منه) أي الأذان و هو مالالحن فیه ولا تلحین (أمسك) حتی عن التلاوة لیجیب المؤذن ولو في المسجد و هؤلاء فضل، وفي الفوائد یمضي علیٰ قراء ته إن کان في المسجد، و إن کان في بیته فکذلك إن لم یکن أذان مسجده.

(قوله: إن لم یکن أذان مسجده) أي فتندب إجابته". (طحطاوي علی مراقي الفلاح) ص۱۱۶باب الأذان، ص۱۱۷)

ذکر وتسبیح ہر حال میں بند کر کے اذان کا جواب دیا جائے ، مسجد میں ہو یا گھر میں.  فقط و  ﷲ اعلم بالصواب‘‘۔ (4/98دارالاشاعت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 117):
"ولاينبغي أن يتكلم السامع في حال الأذان والإقامة، ولايشتغل بقراءة القرآن، ولا بشيء من الأعمال سوى الإجابة، ولو كان في القراءة ينبغي أن يقطع ويشتغل بالاستماع والإجابة، كذا قالوا في الفتاوى، والله أعلم".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 398):
"(فيقطع قراءة القرآن لو) كان يقرأ (بمنزله ويجيب) لو أذان مسجده كما يأتي (ولو بمسجد لا) لأنه أجاب بالحضور، و هذا متفرع على قول الحلواني، و أما عندنا فيقطع ويجيب بلسانه مطلقا".

الفتاوى الهندية - (2 / 337):
"ولاينبغي أن يتكلم السامع في خلال الأذان والإقامة ولايشتغل بقراءة القرآن ولا بشيء من الأعمال سوى الإجابة، ولو كان في القراءة ينبغي أن يقطع ويشتغل بالاستماع والإجابة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں