بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تیجے چالیسویں میں شرکت اور وہاں بیان کرنا


سوال

میرے ماموں کے انتقال کو 40دن مکمل نہیں ہوئے اور اس سے پہلے 13شعبان آرہا ہے ،جس کے متعلق ممانی اور ان کے میکے والوں کے باطل نظریات کے مطابق یہ عرفہ کا دن ہوتا ہے جو مردوں کی عید ہے۔ لہذا ان کا ارادہ اس سے پہلے پہلے چالیسواں کرلینے کا ہے۔ نامعلوم کس عقیدے کی بنا پر 40دن ہونے سے پہلے چالیسواں کر نے کا ارادہ ہے۔ چونکہ الحمد للہ ہمارے گھر کو جامعہ سے نسبت کی بنا پر اللہ نے اپنے فضل سے ان خرافات سے محفوظ رکھا ہے۔ چالیسویں کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ لیکن اب اگر انتقال کو چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے چالیسویں کے نام سے اجتماع رکھا جائے تو کیا اس میں شرکت جائز ہے؟ نہ جانے کی صورت میں آئندہ ناراضگی یا کچھ بھی رد عمل متوقع ہے لیکن الحمد للہ بدعت کے انسداد کے لئے قدم اٹھانے کی ہمت ہے ۔ لیکن حکمت سے چلنے کی کیا صورت ہے رہنمائی فرمائیں۔

انتقال کے دن اور سوئم میں ہم بہنوں کو بیان کا بھی کہا گیا الحمد للہ کیا بھی۔ اب چالیسویں میں بھی کہا جائے گا۔کیا شرکت کرنا بیان کرنا درست ہوگا؟؟ اور اگر بیان کرنا درست ہے تو کیا وضاحت کے ساتھ بیان میں اس بدعت کا ذکر کرنا مناسب ہوگا؟

جواب

ایک مسلمان کا فرض یہ ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے  کی پوری کوشش کرے۔

غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً: تیجہ، چالیسواں،اجرت کے عوض تلاوتِ قرآن پاک ، نوحہ وغیرہ)  کا ارتکاب کرنا ناجائز ہے،میت کے لیے  ایصالِ ثواب تو  ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتاہے،  لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً  ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے  ہیں، اور اسے ضروری سمجھا جاتاہے، شرکت نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا  یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے اور ایسی تقریبات میں شرکت کرنا بھی ناجائز  ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ یا ان کی بہنوں کا سوئم یا چالیسویں میں بیان کی غرض سے بھی  شرکت کرنا جائز نہیں ہے، اصلاح اور بیان کے لیے کوئی اور مناسب دن مقرر کرلیاجائے ، جس میں صرف خواتین شریک ہوں اور انہیں ان بدعات اور رسومات کی قباحت اور ان سے بچنے کی تلقین کی جائے۔

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"وعن أبي قلابة: " لاتجالسوا أهل الأهواء، ولاتجادلوهم; فإني لاآمن أن يغمسوكم في ضلالتهم، ويلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون". قال أيوب: "وكان والله من الفقهاء ذوي الألباب". وعنه أيضاً: أنه كان يقول: "إن أهل الأهواء أهل ضلالة، ولاأرى مصيرهم إلا إلى النار". وعن الحسن: " لاتجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك".

(الاعتصام للشاطبي، الباب الثانی في ذم البدع و سوء منقلب صاحبها،ج:1،ص:83،ط: المكتبة التجارية الكبري - مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں