بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی مال کی زکوۃ قیمت فروخت کے حساب سے نکالنے کاحکم


سوال

کیا زکات کا حساب قیمتِ خرید پر کرنی چاہیے یا قیمتِ فروخت پر کرنی چاہیے ؟

جواب

   تجارتی مال کی زکاۃ  ادا کرنے میں قیمتِ خرید کا اعتبار  نہیں ہے، بلکہ  قیمتِ فروخت کا اعتبار ہے،  یعنی زکاۃ نکالتے  وقت بازار میں  سامان کو فروخت کرنے کی جو قیمت ہے، اسی قیمت سے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

''(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح."

(كتاب الزكاة،باب زكاة الغنم ج : 2 ص : 286 ط : سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے :

"وذكر محمد رحمه الله في «الرقيات» أنه ‌يقوم ‌في ‌البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوّم بغالب نقد البلد كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره."

(كتاب الزكاة،‌‌الفصل الثالث في بيان مال الزكاة ج : 2 ص : 246 ط : دارالكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں