بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت ورہائش کی نیت سے خریدے گئے پلاٹوں پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے تقریباً عرصہ دو سال قبل دو  پلاٹ  خریدے تھے،  میرا  ارادہ یہ تھا کہ ایک پلاٹ کو بیچ کر دوسرے پر اپنے لیے مکان تعمیرکروں گا،  لیکن فی الحال میں ایک پلاٹ فروخت نہیں کر پایا،  کیا مجھ پر ان پلاٹوں کی زکات دینا بنتی ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  مذکورہ دو پلاٹوں میں سے جو  پلاٹ تجارت (نفع پر بیچنے) کی نیت سے خریدا گیا ہے، سال پورا ہونے پر حسبِ شرائطِ  زکوۃ  مذکورہ پلاٹ کی قیمتِ فروخت پر زکوۃ لازم ہے، یعنی سائل اگر صاحبِ نصاب ہے تو دیگر اموالِ زکوۃ  (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت ) کی زکوۃ ادا کرتے وقت مذکورہ پلاٹ کی قیمت فروخت پر ڈھائی فیصد زکوۃ لازم ہے، اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں  تھا تو  سال پورا ہونے پر  چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوۃ دینا ہوگا، نیز جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا گیا ہے اس پر زکوۃ  نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين." 

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:262، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209201852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں