بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کے لیے لی ہوئی زمین پر زکات کا حکم؟


سوال

میں زمینوں کی خرید و فروخت کرتا ہوں، اگر میں نے منافع کے لیے زمین خریدی، اور وہ چار پانچ سال میں فروخت نہیں ہوئی، تو زکات کس حساب سے دوں گا؟

جواب

اگر  آپ نے کوئی زمین  فروخت کے لیے خریدی اور وہ چار، پانچ سال تک فروخت نہیں ہوئی، اور بیچنے کی نیت برقرار ہو  تو  آپ پر اس کی  زکات ادا کرنا لازم ہوگا، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ  ہر سال زکات ادا کرتے وقت اس زمین کی  قیمت لگائیں گے، اور اس وقت موجودہ قیمت کے حساب سے اس  کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات اداکریں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."

(كتاب الزكاة، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال (2/ 12)،ط.  دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"والخلاف في زكاة المال فتعتبر القيمة وقت الأداء في زكاة المال على قولهما، وهو الأظهر، وقال أبو حنيفة: يوم الوجوب كما في البرهان."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، نصاب الذهب والفضة (1/ 181)،ط. دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں