بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

تجارت کی غرض سے اگائے گئے سبز چارے پر عشر


سوال

سبز چارہ کاشت کر کے فروخت کر دیتا ہوں! اس پر عشر ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہےکہ  کاشت کےواسطےمختص کی گئی عشری زمین پرہرمقصودی چیزاگانےمیں عشرواجب ہے،چاہےاپنےاستعمال کےلیےاگائی گئی ہویاتجارت کےغرض سےبوئی گئی ہو،البتہ بارش کےپانی سےسیراب ہونےوالی عشری زمین میں کل پیداوارکادسواں حصہ صدقہ دیناضروری ہےجب کہ کنویں  کےپانی سےرہٹ یاجنریٹرکےذریعےسے سیراب ہونےوالی عشری زمین میں کل پیداوارکابیسواں حصہ صدقہ دیناضروری ہے،نیزدورانِ کاشت زمین پرجوخرچہ آئےاسےمنہانہیں کیاجائےگابلکہ مجموعی پیداوارکادسواں یابیسواں حصہ نکالناضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل جوسبزچارہ کاشت کرتاہےتجارت کےغرض سےکاشت کرتاہے،لہٰذاایسی پیداوارپرعشرواجب ہے،تو مذکورہ زمین اگربارش کےپانی سےسیراب کی جاتی ہےتوکل پیداوارکادسواں حصہ نکالناواجب ہےاوراگرکنویں  کےپانی سےرہٹ یاجنریٹرکےذریعے سےسیراب کی جاتی ہےتوکل پیداوارکابیسواں حصہ نکالناضروری ہے۔

العنایۃ میں ہے:

"أما الحطب والقصب والحشيش فلا تستنبت في الجنان عادة بل تنقى عنها حتى لو اتخذها مقصبة أو مشجرة أو منبتا للحشيش يجب فيها العشر...وقوله (في الجنان) أي في البساتين وبيانه أن الحطب والقصب والحشيش ونحوها مما لا يستنمى به الأرض لا عشر فيها لأن سبب وجوب العشر الأرض النامية وهذه الأشياء تنقى عنها البساتين لأنها إذا غلبت على الأرض أفسدتها فلا يحصل بها النماء حتى لو اتخذ الأرض مقصبة أو مشجرة أو منبتا للحشيش وأراد به الاستنماء بقطع ذلك وبيعه وجب فيها العشر".

(كتاب الزكاة،باب زكاة الزروع والثمار،ج:2،ص:245،ط:مطبعة مصطفي البابي الحلبي)

الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:

"أما إذا اتخذ أرضه ‌مقصبة ‌أو ‌مشجرة أو منبتا للحشيش وساق إليه الماء ومنع الناس منه يجب فيه العشر".

(كتاب الزكاة،باب زكاة الزروع والثمار،ج:1،ص:125،ط:المطبعة الخيرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا يحتسب لصاحب الأرض ما أنفق على الغلة من سقي، أو عمارة، أو أجر الحافظ، أو أجر العمال، أو نفقة البقر؛ لقوله صلى الله عليه وسلم «ما سقته السماء ففيه العشر وما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر» ، أوجب العشر ونصف العشر مطلقا عن احتساب هذه المؤن ولأن النبي صلى الله عليه وسلم أوجب الحق على التفاوت لتفاوت المؤن ولو رفعت المؤن لارتفع التفاوت".

(كتاب الزكاة،فصل:بيان مقدارالواجب من العشر،ج:2،ص:62،ط:مطبعة شركة المطبوعات العلميةبمصر)

فتح باب العنایۃ میں ہے:

"وما خرج من الأرض وإن قل: عشر، إن سقاه سيح أو مطر...ونصف عشر إن سقي بغرب أو دالية بلا رفع مؤن الزرع...(بلا رفع مؤن الزرع) يعني لا يحسب رب المال أجرة العمال، ونفقة البقر، وكري النهر، وغير ذلك مما يحتاج إليه في الزرع".

(كتاب الزكاة،فصل في زكاة الخضروات،ج:1،ص:523،ط:دار الأرقم بن أبي الأرقم بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں