بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تحریری اور زبانی فتوی میں فرق


سوال

پوچھنا یہ ہے کہ ایک دارالافتاء کے مفتی صاحب کا کسی فتوے کو صرف زبان سے بیان کردینے اور لکھ کر دینے میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب

دونوں ہی صورتیں درست ہیں تاہم تحریری فتوی محفوظ ہوجاتا ہے اور خطا کا امکان کم ہوتا ہے۔

أدب المفتي والمستفتي (1 / 134):
"يجب على المفتي حيث يجب عليه الجواب أن يبينه بيانًا مُزيحًا للإشكال، ثم له أن يجيب شفاهًا باللسان، وإذا لم يعلم لسان المستفتي أجزأت ترجمة الواحد لأن طريقه الخبر، وله أن يجيب بالكتابة مع ما في الفتوى من الرقاع من الحظر، وكان القاضي أبو حامد المروروذي الإمام فيما بلغنا عنه كثير الهرب من الفتوى في الرقاع.
قال أبو القاسم الصيمري: وليسمن الأدب للمفتي أن يكون السؤال بخطه، فأما بإملائه وتهذيبه فواسع.
وبلغنا عن الشيخ أبي إسحاق الشيرازي رحمه الله: أنه كان قد يكتب للمستفتي السؤال على ورق من عنده, ثم يكتب الجواب." فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144109200957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں