جب کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس کو ثواب پہنچانے کی خاطر تیسرا ،آٹھواں، چالیسواں اور خیرات کرتے ہیں اور دوستوں عزیزوں کو بلا کرکھلا تے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
میت کے لیے ایصالِ ثواب تو ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو، تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے ،آٹھویں اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، اور اسے ضروری سمجھا جاتاہے، شرکت نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے؛ لہذا یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے، ایسی تقریبات میں شرکت کرنا اور کھانا کھانا بھی ناجائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص".
(کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، 2/240 ،ط،سعید)
وفيه ايضا:
"قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا۔"
(کتاب الاجارۃ،باب الاجارۃ الفاسدۃ، مطلب فی الاسئجار علی المعاصی،6/56،ط،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101061
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن