بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق کی صورت میں عدت ختم ہونے کے بعد بیوی کو بغیر نکاح کے ساتھ رکھنا


سوال

میری بیٹی کا نکاح 2017۔ 07۔ 15 کو ہوا، لڑکے نے رخصتی کی تاریخ پر جھگڑا کر کے نکاح کے سترہ دن بعد میری بیٹی کو اپنے گھر بلالیا، میری بیٹی نے اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے اپنی والدہ کے گھر جانا ہے اور رخصتی گھر سے لینی ہے تو اس کے شوہر نے کہا کہ اگر آج کے بعد میرے گھر کے دروازے سے قدم باہر نکالا اور ماں کے گھر گئی تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے۔ میری بیٹی تین سال میرے گھر نہ آئی۔ ایک دو بار فون کیا کہ آرہی ہوں لیکن نہیں آئی۔ 2020۔ 08۔ 28 کو رات ساڑھے دس بجے میرے گھر آئی اور بتایا کہ میرا خاوند ذہنی مریض ہے اور جسمانی طور پر بھی بیمار ہے، ہائی بلڈ پریشر  کا مریض ہے، شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا ہے، تین سال کے دوران صرف ایک بار دوائی کھاکر ہم بستر ہوا، جس کی وجہ سے ایک بیٹا ہے، بارہا تشدد  کا نشانہ بنایا، میری کردار کشی کرتا ہے، میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، مجھے اس سے جان کا خطرہ ہے۔ جس دوران میری بیٹی میرے گھر پر تھی اس کے شوہر نے گواہوں کے سامنے 2020۔ 10۔ 03 کو ایک اور طلاق دی اور تیسری دینے لگا تو وہاں موجود ایک آدمی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ پہلی طلاق کی شرط پوری ہونے کے بعد میری بیٹی کے شوہر نے قولی یا فعلی رجوع نہیں کیا تھا۔ پھر 2020۔ 11۔ 19 کو میری بیٹی کے شوہر نے کئی بار کنایۃ طلاق کی نیت سے کہا کہ "میری طرف سے تم فارغ ہو، تم بدکردار ہو، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں"۔ جب کہ اس کہنے کے وقت اس کی عدت مکمل ہوچکی تھی

اب پوچھنا یہ ہے کہ میری بیٹی پر کتنی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟ کیا ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟ میری بیٹی کا شوہر کہتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی اور زبردستی میری بیٹی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان حقیقت کے مطابق ہے کہ تعلیق طلاق کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی اس کے بعد عدت میں دوسری طلاق دینے کی وجہ سے دوسری بھی واقع ہوگئی ہے اس طرح مجموعی اعتبار سے سائلہ کی بیٹی پردو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،اورعدت گزرجانے کے بعد  اس شخص  کے یہ جملے "میری طرف سے تم فارغ ہو، تم بدکردار ہو، میرا تم سے کوئی تعلق نہیں" اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیوں کہ عدت کے دوران  رجوع نہ ہونے  وجہ سے عدت  پوری ہوتے ہی نکاح ختم ہوچکا تھا اور عورت طلاق کامحل نہیں رہی تھی ، اس کے بعد اگر باہمی رضامندی سے ساتھ رہنا چاہیں تو  نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی دوبارہ نکاح کرنا   ہوگا،نکاح کے بغیر ساتھ رہنا جائز نہیں ۔

نکاح کے بعد  آئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا،نیز سائلہ کی بیٹی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

     "واذا طلق الرجل امراتهتطلیقة رجعیة او  تطلیقتین  فله ان یراجعھا فی عدتھا رضیت بذلک او لم ترض کذا فی الھدایة"۔

(الباب السادس فی الرجعۃ، کتاب الطلاق، ص/۴۷۰، ج/۱، ط/رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومحله المنكوحة) وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ"۔

(کتاب الطلاق، ص/230، ج/3، ط/سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں