ایک شخص کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوئی، لڑائی کے دوران پڑوسی کو بلایا گیا، اور شوہر نے کہا کہ”اس کو باہر نکالو، میں نے اس کو طلاق دے دی“، اب شوہر کہتا ہے کہ میں نے دو مرتبہ یہ الفاظ ادا کیے ہیں، موقع پرموجود دو گواہ تھے، ان میں سے ایک شوہر کی بات کی تصدیق کرتا ہے، اور دوسرا کہتا ہے کہ شوہر نے سات مرتبہ مذکورہ الفاظ ادا کیے ہیں، یہ دوسرا گواہ عام طور پر نشہ میں رہتا ہے، اس دوران بھی وہ (شراب کے)نشہ میں تھا، لیکن اس حالت میں بھی وہ گھر کے کام کاج درست طور پر انجام دیتا ہے، بیوی سے جب پوچھا گیا تو پہلے اس نے کہا کہ میں نے کچھ نہیں سنا، پھر دباؤ ڈالنے کے بعد اس نے کہا کہ میرے شوہر نے لڑائی کے دوران چھ سے سات بار طلاق دی ہے، حالانکہ لڑائی کے وقت بیوی گھر سے باہر گلی میں تھی، اب پوچھنا یہ ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ نیز شوہر کا کہنا ہے کہ میں نے بیوی کا نام طلاق دیتے وقت نہیں لیا۔
بیوی کا ذہنی توازن درست نہیں ہے، یادداشت اس کی کمزور ہے، اس معاملہ پر میاں بیوی اور دونوں گواہوں سے قسم بھی لی گئی ہے، سب نے اپنے اپنے موقف پر قسم بھی اٹھالی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اس بات پر سب لوگ متفق ہیں کہ شوہر نے دو بار ”اس کو باہر نکالو، میں نے اس کو طلاق دے دی“ کے الفاظ کہے ہیں، جبکہ شوہر بھی اس کا اقرار کررہا ہے، اگرچہ شوہر نےبیوی کا نام نہیں لیا، لیکن بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کی ہے، لہٰذا مذکورہ شخص (شوہر) کی بیوی پر دو رجعی طلاقیں بہر صورت واقع ہوگئی ہیں۔
اور تیسری طلاق کے بارے میں میاں بیوی کے بیانات میں اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس مسئلہ کا شرعی حل یہ ہے کہ میاں بیوی قریبی کسی مستند عالمِ دین یا کسی مفتی صاحب کو اپنے اس قضیہ کے لیے حَکم/ منصِف بنائیں، بعد ازاں حسب ضابطۂ شرعی وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں، اور جب تک شرعی فیصلہ نہ ہو جائے دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء."
)کتاب الطلاق، باب فی إیقاع الطلاق، 1/ 390، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)
إعلاء السننمیں ہے:
" البینة علی المدعي والیمین علی المدعی علیه."
(کتاب الدعوی،باب البینة علی المدعي والیمین علی من أنکر، 15 / 351، ط إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"يجب أن يعلم بأن التحكيم جائز وشرط جوازه أن يكون الحكم من أهل الشهادة وقت التحكيم ووقت الحكم أيضا حتى أنه إذا لم يكن أهلا للشهادة وقت التحكيم وصار أهلا للشهادة وقت الحكم."
(کتاب أدب القاضی، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، 3/ 397، مکتبة رشیدیة)
وفیه أیضاً:
"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة، ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."
(کتاب أدب القاضی، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، 3/ 397، مکتبة رشیدیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603103054
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن