بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تیس گھروں پر مشتمل آبادی میں نماز جمعہ قائم کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے کی آبادی جو کہ تیس گھروں پر مشتمل ہے جو کہ علیحدہ علیحدہ ڈیرے ہیں ،ہماری اس آبادی میں ایک پرائمری سکول ،فاتحہ خوانی جنازہ گاہ ،قبرستان اور ایک چھوٹی سی دکان موجود ہے،کیا ہم اس آبادی میں حالاتِ حاضرہ اور وقت کی قلت کی وجہ سے نمازِ جمعہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ آبادی گاؤں سے تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ،برائے مہربانی اس مسئلہ میں فقہ حنفی کے مطابق ہماری راہ نمائی فرمائی۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ واجب ہے  ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی مجموعی آبادی ڈھائی  تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اور جس بستی کی آبادی اس سےکم ہو اور وہاں ضروریاتِ زندگی بھی میسر نہ ہوں تو وہ قریہ صغیرہ کہلاتی ہے جس میں جمعہ و عیدین  کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ،بلکہ جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ 

مذکورہ تفصیل کی رو سے  صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ علاقہ جوصرف تیس گھرانوں پر مشتمل ہےاور وہاں بازار وغیرہ بھی نہیں ہے، نہ ہی ضرورت کی تمام اشیاء وہاں ملتی ہیں ، چونکہ یہ آبادی قریہ صغیرہ ہے لہذا مذکورہ آبادی میں    جمعہ وعیدین  کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ، بلکہ  جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ادا  کرنا ضروری ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،138/2،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة.

(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح (قوله بما لا يصح) أي على أنه عيد، وإلا فهو نفل مكروه لأدائه بالجماعة."

(كتاب الصلاة،باب العيدين،167/2،ط: سعيد)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نمازِ جمعہ  فرض ہے اورادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاقِ علمائے حنفیہ  جمعہ نہیں ہوتا  اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ  سے اور کثرت و قلتِ آبادی سے معلوم ہوتا ہے ،جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا وہ قریہ کبیرہ بحکمِ قصبہ ہو سکتاہے اور اس سے کم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔"  

(کتاب الصلوۃ ،باب الجمعۃ ، 124/5،ط:دارالاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں