میرےوالد نے مجھے کسی بات پر طعنہ دیا کہ تم نے اپنی بیوی کو کیوں کچھ نہیں بولا؟تو میں نے غصہ میں قرآن پاک ہاتھ میں اٹھاکر صرف اتنا بولا کہ’’ تین طلاق‘‘،اب آپ حضرات راہ نمائی فرمائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے کے لیے بیوی کی طرف صریح اضافت ضروری نہیں ہے، بلکہ معنوی اضافت بھی کافی ہوتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نےسائل کو کسی بات پر طعنہ دیتے ہوئے یہ کہاکہ تم نے اپنی بیوی کو کیوں کچھ نہیں بولا ؟اور اس بات كے جواب میں سائل نےقرآن ہاتھ میں اٹھاکر یہ لفظ بولاکہ’ تین طلاق‘‘تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،نکاح ختم ہوچکا ہے،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے،مطلقہ اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہواور اگرحمل ہو توبچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته.
ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها."
(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،248/3، ط: سعید)
ارشاد باری تعالی ہے:
" فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ." [ البقرة: 230 ]
ترجمہ:"پھر اگر کوئی (تیسری )طلاق دے دےعورت کو تو پھر وہ اس کےلیے حلال نہ رہے گی، اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد)نکاح کرلے۔" (بیان القرآن)
بخاری شریف میں ہے:
" عن عائشة رضي الله عنها،ان رفاعة القرظي تزوج امراة، ثم طلقها، فتزوجت آخر، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت له انه لا ياتيها وانه ليس معه إلا مثل هدبة، فقال: لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك."
( كتاب الطلاق،باب: إذا طلقها ثلاثا ثم تزوجت بعد العدة زوجا غيره فلم يمسها،رقم الحدیث:5317، ط: رحمانية)
ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روايت ہے،کہ رفاعہ قرظی نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر انہیں طلاق دیدی تو اس عورت نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی،پھر وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،اور آپﷺ سے دوسرے شوہر کا ذکر کرنے لگی،کہ یا رسول اللہ یہ میرے پاس آتے ہی نہیں اور یہ کہ ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کے سوا کچھ نہیں ہے،تو آپﷺ نے فرمایا تم پہلے شوہر کے پاس نہیں جا سکتی ہو ،یہاں تک کہ تم دوسرے شوہر کا مزہ چکھ لو،اور وہ تیرا مزہ چکھ لے۔"(نصر الباری)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
( کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به،1/ 473 ، ط : مكتبه رشيدية )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102268
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن