بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین انگلیوں سے کھانا مستحب ہے اور بہ وقتِ ضرورت پانچوں انگلیوں سے کھانا جائز ہے


سوال

سنا ہے که تین انگلیوں سے کھانا کھانا سنت ہے،حالاں كه تین انگلیوں سے کھانا تو بہت مشکل ہے، لامحالہ باقی انگلیاں بھی ساتھ ملانی پڑتی ہیں، اس بارے میں شرعی رہنمائي فرما دیں۔

جواب

تین انگلیوں (یعنی انگوٹھے اور اس سے ملی ہوئی دو انگلیوں) سے کھانا کھانا سنّت ہے، اور یہ سننِ زوائد میں سے ہے جس کی حیثیت مستحب کی ہے، اور اگر کھانے میں کوئی ایسی چیز ہو جسے تین انگلیوں سے کھانا مشکل ہو، جیسے چاول ہوں یا کوئی زیادہ شوربے والی اور  تر  چیز ہو، تو ضرورت کی وجہ سے چوتھی یا پانچویں انگلی بھی لقمہ اٹھانے میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے، اور اس کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

مصنَّف ابن أبی شیبہ میں ہے:

‌‌"عن أنس قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أكل لعق أصابعه الثلاث وقال: أمرنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن (نسلت) الصحفة، وقال: "إن أحدكم لا يدري في أي طعامه يبارك له فيه".
قال المحقق:  صحيح؛ أخرجه مسلم (2034)، وأحمد (12815)، وأبو داود (3845).

(کتاب الأطعمة، في لعق الأصابع، 13/ 421، ت الشثري، ط: دار كنوز إشبيليا الرياض)

ترجمہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کھانا تناول فرماتے، تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹ لیتے۔۔۔"

شعب الإيمان للبیہقی میں ہے:

 "عن أبي بن كعب بن مالك عن أبيه قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل ‌بثلاثة ‌أصابع ولا يمسح يده حتى يلعقها".رواه مسلم عن يحيى بن يحيى عن أبي معاوية.

( الأكل ‌بثلاثة ‌أصابع ولعقها بعد الفراغ، 5/ 80، ت زغلول، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

ترجمہ:" حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تین انگلیوں سے کھانا کھایا کرتے تھے، اور (کھانے کے بعد)  جب  تک انہیں چاٹ نہ لیتے، ہاتھ نہیں پونچھتے تھے"۔

المنہاج شرحِ مسلم میں ہے:

"في هذه الأحاديث أنواع من سنن الأكل منها استحباب لعق اليد محافظة على بركة الطعام وتنظيفا لها واستحباب الأكل بثلاث أصابع ولايضم اليها الرابعة والخامسة إلالعذر بأن يكون مرقا وغيره مما لايمكن بثلاث وغير ذلك من الأعذار."

ترجمہ:" ان احادیث میں کھانے کی سنتوں کی مختلف قسمیں مذکور ہیں، ان  میں سےایک یہ  ہے کہ: کھانے کی برکت محفوظ کرنے اور  صفائی رکھنے کے لیے ہاتھ چاٹنا مستحب ہے، اسی طرح تین انگلیوں سے کھانا بھی مستحب ہے، ان کے ساتھ چوتھی اور پانچویں انگلی نہ ملائی جائے، الّا یہ کہ کھانے میں  شوربا و غیرہ اس طور پر ہو  کہ اسے تین انگلیوں سے نہ کھایا جا سکتا ہو، یااس کے علاوہ کوئی اور عذر ہو۔"  

(شرح النووي على مسلم، المجلد السابع، 13/ 203، ط: دار إحياء التراث العربي)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن كعب بن مالك - رضي الله تعالى عنه - قال: "كان رسول الله يأكل ‌بثلاثة ‌أصابع" ) ، أي الإبهام والمسبحة والوسطى. قال النووي: الأكل بالثلاث سنة، فلا يضم إليها الرابعة والخامسة إلا لضرورة... وروى الطبراني عن عامر بن ربيعة بلفظ: " كان يأكل بثلاث أصابع ويستعين بالرابعة ". وفي حديث مرسل: " أنه - صلى الله عليه وسلم - كان إذا أكل بخمس، ولعله محمول على المائع، أو على القليل النادر لبيان الجواز، فإن عادته في أكثر الأوقات هو الأكل بثلاث أصابع ولعقها بعد الفراغ، وإنما اقتصر على الثلاثة ؛ لأنه الأنفع، إذ الأكل بإصبع واحدة مع أنه فعل المتكبرين لا يستلذ به الآكل، ولا يستمرئ به لضعف ما يناله منه كل مرة، فهو كمن أخذ حقه حبة حبة، وبالأصبعين مع أنه فعل الشياطين ليس فيه استلذاذ كامل، مع أنه يفوت الفردية، والله وتر يحب الوتر، وبالخمس مع أنه فعل الحريصين يوجب ازدحام الطعام على مجراه من العادة، وربما استد مجراه فأوجب الموت فورا وفجأة".

ترجمہ: "اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم تین انگلیوں سے کھاتے تھے؛ یعنی انگوٹھے، شہادت کی انگلی اور اس کے برابر  (درمیان) والی انگلی سے، علامہ نووی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ 'تین انگلیوں سے کھانا سنت ہے، سو ضرورت کے بغیر ان کے ساتھ چوتھی پانچویں انگلی نہ ملائی جائے '۔۔، اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عامر بن  ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ "نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور چوتھی انگلی سے مدد (سہارا) لیتے تھے"، اور جو  ایک مرسل حدیث میں  ہے کہ "آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  پانچ  انگلیوں سے بھی کھایا ہے"، ہو سکتا ہے کہ ایسا  مائع غذا ہونے کی صورت میں ہوا ہو، یا یہ بالکل ہی کبھی کبھار ہوا ہوگا، وہ بھی یہ بتلانے کے لیے کہ تین سے زائد انگلیوں سے کھانا  جائز ہے؛ اس لیے کہ آپ علیہ الصلٰوۃ  و السلام   کی عادت اکثر اوقات تین ہی انگلیوں سے کھانے اور کھانے سے فارغ ہو کر انہیں چاٹنے کی تھی،۔۔۔ الخ"   

(كتاب الأطعمة، 7/ 2694، ط: دار الفكر، بيروت)

النتف في الفتاوى للسغدي میں ہے:

"واما السنة :فأحدها الجلوس على اليسرى اذا لم يكن بها علة، والثاني غسل اليدين اذا كان الماء حاضرا، والثالث التسمية، والرابع الاكل بثلاثة اصابع اذا كان الطعام ثريدا... (فعدّ المصنف سنن الأكل و أتمّها إلي الحادية عشر)."

(النافلة في الطعام، 1/ 243، ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں