بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی زبانی تین طلاقیں کہلوانا


سوال

میں نے یہ پوچھنا تھا کہ کیا جبراً  طلاق ہو جاتی ہے؟میں نے پسند کی شادی کی تھی کورٹ میرج،  مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ 40 دن  ہوگئے تھے،  ہم ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہے  تھے، میرے سسر نے مجھ پر اغوا کا پرچہ کروا دیا اور پیسے اور طاقت کے زور پر میرے گھر تین تھانوں کی پولیس بھیج دی جو کہ ہم پر تشدد کر کے ہم سے طلاق لینا چاہتے تھے، جب کہ ہم گھر سے بے گھر ہوگئے تھے اور ہمارے پاس کوئی  چارہ نہیں تھا، پولیس ہم کو ہر جگہ تلاش کر رہی تھی، حتی کہ میری بہنوں اور والدہ کو بھی دھمکیاں مل چکی تھیں، میں بالکل بے بس اور لاچار ہو چکا تھا ،لیکن میرا سسر طلاق کی ضد پر ڈٹا ہوا تھا، جب کہ میں اگر طلاق نہ  دیتا تو میرے سسرال والے مجھے اور میرے گھر کے افراد پر بھی تشدد کرتے اور تین تھانوں کی پولیس وہ پہلے ہی بھیج چکے تھے کہ ہمیں گرفتار کر  کے ہم سے زبردستی طلاق دلوائی جائے، اور جو  جو پولیس والے تھے وہ بھی میرے سسرال سے تعلق رکھتے تھے اور ایک بڑے بدمعاش کی دھمکی بھی آ چکی تھی ہمیں کہ طلاق دو،  ورنہ آپ کے گھر کی خواتین کو ہراساں کیا جا سکتا ہے، جب کہ نا میں طلاق دینا چاہتا تھا نامیری بیوی طلاق لینا چاہتی تھی،  ہمیں مجبور کر کہ ہم سے طلاق لی گئی ،  پہلے تحریری طلاق لی گئی ،پھر جب میں وہاں سے أٹھ کے جانے لگا تو ایک طاقت ور آدمی نے کہا کہ اس کی ویڈیو بھی بناؤ اور اس شخص نے یہ کہا کہ جو میں بولوں گا وہ تم بھی بولو اور مجبورًا” طلاق کے ۔۔۔ الفاظ میرے منہ سے نکلواۓ  گئے۔لیکن اب میری بیوی سے میرا رابطہ ہوا ہے اور ہم دونو میاں بیوی کورٹ میں اپنا مقدمہ لے کر جانا چاہتے ہیں تو کیا ہم دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ تفصیل  میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ سائل سے  کتنی طلاقیں زبانی    کہلوائی گئی  ہیں ، اگر  سائل سے زبانی تین طلاقیں کہلوائی گئی  ہیں  تو اس صورت  میں تینو ں طلاقیں  واقع ہو چکی ہیں،  سائل کی بیو ی  سائل پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،  اب رجوع یا تجدیدِ  نکاح کی گنجائش باقی  نہیں ہے ۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحلّ له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،باب ،فیما تحل بہ المطلقہ/ج1/ص473/ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں