بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں


سوال

میری شادی اورمیری بہن کی شادی ہمارےسوتیلےبھائیوں نےمیری والدہ کےمشورہ کےبغیرکم عمری میں تقریباً12سال کی عمرمیں جبراًکروادی، اوروالدہ کےانکارکرنےپرانہیں ماراپیٹاگیا، کیوں کہ میرےوالدکاانتقال اس سےپانچ سال پہلےہوچکاتھا، گھرمیں والدہ کی کوئی سننےوالایاطرف داری کرنےولاکوئی نہیں تھا، آج میری شادی کو12سال کاعرصہ گزرچکاہے، اوراس دوران میرے4بچےپیداہوئے، لیکن اس 12سال کےعرصے میں میرےشوہرنےمجھےلاتعدادمرتبہ طلاقیں دی ہیں، اوریہ طلاقیں مختلف مجالس میں اورمختلف مواقع میں پردی گئی ہیں، جن کاشمارکرناممکن نہیں، کیوں کہ میرےشوہرچھوٹی چھوٹی باتوں پرمجھےطلاق دےدیاکرتےتھے،اب ایسی صورت میں میرےلیےشوہرکےگھرپررہناایک تکلیف دہ عمل ہے، کیوں کہ مجھےپتہ چلاکہ اب میرےلیےاس کےساتھ رہناحرام ہوچکاہے،  آپ میری راہ نمائی فرمائیں کہ  آیامیرااس کےساتھ زندگی گزارناجائزہےیانہیں؟میں اب کیاکروں؟گھرسےنکل کرکسی محفوظ مقام پرچلی جاؤں؟، میں حلفاًکہتی ہوں کہ مندرجہ بالابیان درست ہے،  لہذامیری شرعی راہ نمائی فرمانےکی  آپ حضرات سےدرخواست ہے۔

وضاحت:طلاق کےالفاظ یہ ہوتےتھے"میں تجھےطلاق دیتاہوں"، نیزاس کےبعدپھرشوہررجوع بھی کرلیاکرتےتھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کابیان اگر  واقعتا ًدرست ہےکہ شوہرنےسائلہ کو تین یا اس سےزیادہ طلاقیں دی ہیں، تو پھر سائلہ  پرتین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہیں، اور وہ اپنےشوہرپرحرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوگئی ہے، اور دونوں کےدرمیان جدائی  لازم  ہے، اب نہ رجوع کی گنجائش ہے، اورنہ دوبارہ آپس میں نکاح ہوسکتاہے، سائلہ پرعدت آخری مرتبہ ہمبستری کےبعدسےلازم ہوگئی ہے، لہذا اُس وقت سےتین ماہواری گزرجانےپرعدت مکمل ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح (قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."

(کتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 248/3، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، 473/1، ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 187/3، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ٰ  ہندیہ  میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء...والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."

(الباب الثالث عشر في العدۃ  ج:1 ص:526 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مبدأ العدة في النكاح الفاسد بعد التفريق من القاضي بينهما، أو المتاركة، وبذلك يزول منشؤها الذي هو النكاح الفاسد، وفي الوطء بشبهة عند انتهاء الوطء واتضاح الحال فافهم."

(کتاب الطلاق، باب العدة، 503/3، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602102662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں