میری بیٹی کی شادی تقریبانوسال پہلےہوئی، 26ستمبر2024ءکومیاں بیوی میں کسی بات پرلڑائی ہوئی، تومیری بیٹی نےاپنےبھائی بہنوں کوشوہرکےگھرپربلایا، کیونکہ اس کےشوہرنےاس کوماراپیٹاتھا، اب تک میراایک بیٹااوردوبیٹیاں وہاں موجودتھیں کہ دامادنےمیری بیٹی کوان الفاظ سےطلاق دی”میں تمہیں طلاق دیتاہوں“، اس کےبعدمیرےبیٹےمیری بیٹی کودامادکےگھرسےباہرلےآئے، تودامادنے بھی باہرآکر دوبارہ تین دفعہ یہ الفاظ کہے”میں تمہیں طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں“ جس کومیری اس بیٹی کےعلاوہ ایک بیٹے، دواوربیٹیوں، اوراہل محلہ نےبھی سنا، اس مذکورہ واقعہ کےبعد ایک اورموقع پردامادنےمیری بیٹی کوموبائل فون پر مذکورہ الفاظ کہےتومیری بیٹی نےکال کاٹ دی، اب شوہریہ کہتاہےکہ میں نےتوتمہیں صرف ایک طلاق دی ہے، اوروہ کئی دفعہ میری بیٹی کولےجانےکےلیےآیابھی ہے، مگرمیری بیٹی اس کےساتھ جانےکےلیےتیارنہیں، اب سوال یہ ہےکہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں ہوئیں ؟شوہرنےکئی دفعہ یہ بات بھی کی ہےکہ اس طرح توطلاق نہیں ہوتی، چاہےدس فعہ یہ الفاظ کہے جائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگرمذکورہ واقعہ درست اورحقیقت کےمطابق ہے، اوربیوی کےبہن بھائی (ایک بھائی دوبہنیں)بھی اس بات کی گواہی دےرہےہیں کہ شوہرنے مذکورہ الفاظ کہےہیں تو سب سے پہلےجب شوہرنےگھرکےاندربیوی کو یہ کہاکہ ”میں تمہیں طلاق دیتاہوں“ تو اس سےبیوی پرایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، پھرجب شوہرنے باہرآکرتین دفعہ یہ الفاظ کہےکہ ”میں تمہیں طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں“ تواس سےباقی دوطلاقیں واقع ہوکر مجموعی طورپر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور اسی وقت نکاح ختم ہوگیا، اب رجوع نہیں ہوسکتا کیونکہ بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوگئی ہے، نیز فی الحال دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔
نیز شوہر کا یہ کہنا کہ ’’چاہے دس دفعہ یہ الفاظ کہے جائیں، اس طرح طلاق نہیں ہوتی‘‘ شرعی احکام سے ناواقفیت پر مبنی ہے، ایک ہی مجلس میں جتنی بار طلاق دی جائے اتنی بار ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:
"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ "(البقرة: (229.230
’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ... پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔‘‘ ) ترجمہ از بیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."
(صحيح البخاری ،كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث، 2/ 300، ط:رحمانية)
ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
قال في الفتح بعد سوق الأحاديث الدالة عليه: وهذا يعارض ما تقدم، وأما إمضاء عمر الثلاث عليهم مع عدم مخالفة الصحابة له وعلمه بأنها كانت واحدة فلا يمكن إلا وقد اطلعوا في الزمان المتأخر على وجود ناسخ أو لعلمهم بانتهاء الحكم لذلك لعلمهم بإناطته بمعان علموا انتفاءها في الزمن المتأخر وقول بعض الحنابلة: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عنهم أو عن عشر عشر عشرهم القول بوقوع الثلاث باطل؟ أما أولا فإجماعهم ظاهر لأنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر حين أمضى الثلاث، ولا يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف تسمية كل في مجلد كبير لحكم واحد على أنه إجماع سكوتي.
وأما ثانيا فالعبرة في نقل الإجماع نقل ما عن المجتهدين والمائة ألف لا يبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة، والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال} [يونس: 32]- وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف وغاية الأمر فيه أن يصير كبيع أمهات الأولاد أجمع على نفيه وكن في الزمن الأول يبعن اهـ ملخصا ثم أطال في ذلك (قوله في طهر واحد) قيد للثلاث والثنتين."
(کتاب الطلاق، 233/3، ط:سعید)
وفیه أیضاً:
"(ويسأل القاضي المدعى عليه) عن الدعوى فيقول إنه ادعى عليك كذا فماذا تقول (بعد صحتها وإلا) تصدر صحيحة (لا) يسأل لعدم وجوب جوابه (فإن أقر) فيها (أو أنكر فبرهن المدعي قضى عليه)
(قوله فبرهن) ظاهره أن البينة لا تقام على مقر. قال في البحر إلا في أربع فراجعه، وفيه لو أقر بعد البينة يقضى به لا بها، وأنه لو سكت عن الجواب يحبس إلى أن يجيب راجعه."
(کتاب الدعویٰ، 547/5، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وتجوز شهادة الأخ لأخته، كذا في محيط السرخسي.
شهادة الأخ لأخيه وأولاده جائزة، وكذا الأعمام وأولادهم والأخوال والخالات والعمات، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الشهادات، الباب الرابع فيمن تقبل شهادته ومن لا تقبل، الفصل الثالث فيمن لا تقبل شهادته للتهمة، 470/3، ط:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)...(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح.
(قوله: وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."
(کتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 248/3، ط:سعید)
فتح القدير میں ہے :
"واعلم أن الصريح يلحق الصريح والبائن عندنا، والبائن يلحق الصريح لا البائن إلا إذا كان معلقا."
(فصل في الطلاق قبل الدخول ج:1 ص:71 ط:شركة مكتبة ومطبعة مصفى)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 187/3، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101723
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن