بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد میاں بیوی کا ساتھ رہنا


سوال

ہماری شادی کو تقریباً 23، 24 سال ہوگئے ہیں، شادی کے دو تین سال بعد ہمارا جھگڑا ہوا تو غصے کی حالت میں میرے منہ سے تین دفعہ یہ الفاظ نکلے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد ہم نے ایک عالم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، طلاق نہیں ہوئی، آپ جائیں اور ہنسی خوشی زندگی گزاریں، اس کے بعد سے ہم پھر ساتھ رہنے لگے، کچھ عرصہ بعد میری بیوی کراچی چلی گئی اور مجھ سے اسی طلاق کا ذکر بھی کرتی رہی، اس کے بعد بھی ایک موقع پر میں نے کہا "جاؤ ایک ہزار بار دیتا ہوں"، اس نے کہا کیا؟ میں نے کہا وہی جو دیتے ہیں لیکن طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا، اس کے بعد بھی اس طرح کے واقعات ہوئے، اب میری اس مسئلے میں رہنمائی کریں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ہیں؟ کیا اب ہم دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی شادی کے دو تین سال بعدبیوی کو لڑائی جھگڑے کے دوران جب مذکورہ الفاظ (میں تمہیں طلاق دیتا ہوں) تین دفعہ کہے، تو اسی وقت اس کی بیوی پر یہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی۔ نکاح ختم ہوچکا تھا، رجوع جائز نہیں تھا اور نہ دوبارہ نکاح ہوسکتا تھااس کے بعد دونوں کا ایک ساتھ رہنا ناجئز و حرام تھا ،لہذا دونوں پر ضروری ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کرلیں اور اب تک طلاق کے بعد ساتھ رہنے سے جو گناہ ہوا ہے اس پر دونوں صدقِ دل سےخوب توبہ و استغفار کرلیں۔

البتہ سائل کی بیوی اپنے شوہرِ اول سے علیحدہ ہونے کے وقت سے تین ماہواری عدت گزارے، پھر اس کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) ہوجائے، اس کے بعد دوسرا شوہر اسے طلاق دیدےیا اس کا انتقال ہوجائے یا عورت خود طلاق لے لے، تو اس کی عدت گزار کر شوہرِ اول (سائل) کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و البدعی ثلاث متفرقۃ ۔۔۔ قولہ: ثلاث متفرقۃ وکذا بکلمۃ واحدۃ بالاولی ۔۔۔ الی قولہ: و ذھب جمھور الصحابۃ و التابعین و من بعدھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع ثلاث."

(ج: 3، ص: 232/ 233، کتاب الطلاق، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(ج: 1، ص: 472، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ  و ما یتصل بہ، ط:ماجدیہ)

وایضاً فی الرد:

"(و) مبدؤها (في النكاح الفاسد) بعد التفريق من القاضي بينهما، ثم لو وطئها حد جوهرة وغيرها، وقيده في البحر بحثا بكونه بعد العدة لعدم الحد بوطء المعتدة (أو) المتاركة أي (إظهار العزم) من الزوج (على ترك وطئها) بأن يقول بلسانه: تركتك بلا وطء ونحوه، ومنه الطلاق وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا، لا مجرد العزم لو مدخولة وإلا فيكفي تفرق الأبدان."

(ج:3، ص:522/ 523، کتاب الطلاق، باب العدۃ، مطلب فی وطء المعتدۃ بشبھۃ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں