بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کا مسئلہ


سوال

میں ایک شادی شدہ پڑھی لکھی ڈاکٹر عورت ہوں اور ایک 6 سال کا میرا بچہ بھی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر جب بھی مجھ سے لڑتے ہیں، مجھے طلاق دینے کی بات کرتے ہیں، صرف بات نہیں کرتے، بلکہ شادی کے تین یا چار سال بعد کہا بھی "کہ میں نے تمہیں طلاق دی، تم چلی جاؤ اس گھر سے" اور کافی بار ایسا کہہ چکے ہیں، گزشتہ دس روز قبل کچھ سخت لڑائی ہوئی اور میرے شوہر نے میرے بہنوئی سے فون پر کہا "کہ میں نے اسے طلاق دی طلاق دی" میں نے فون پر ہاتھ مارا جس کی وجہ سے موبائل زمین پر گرا تو پھر مجھے کہا "کہ میں نے طلاق دی" میں ابھی بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہوں، اس مسئلہ کا حل بتائیں، میں کسی گناہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہتی اور میرے رشتے کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ سائلہ کا شوہر اسے شادی کے تین چار سال بعد طلاق کے مذکورہ الفاظ متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے اور اس دوران عدت کے اندر رجوع بھی ہوتا رہا، تو ایسی صورت میں تین مرتبہ طلاق دینے کی صورت میں سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی  ہیں اور  وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، رجوع جائز نہیں تھا، اور  دوبارہ  نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ طلاق واقع ہونے کے باوجود بعد میں جتنا عرصہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی، اس کی وجہ سے دونوں گناہ گار ہوئے، اس پر دونوں صدقِ دل سے خوب توبہ و استغفار کریں۔  آئندہ اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ فوری علیحدگی اختیار کرلی جائے۔

سائلہ اپنے  شوہر سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

ہاں البتہ عدت گزارنے کے بعد سائلہ اگر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور اس سے ہم بستری (جسمانی تعلق) ہوجائے، اس کے بعد  دوسرا شوہر سائلہ کو طلاق دے دے یا سائلہ خود طلاق لے لے یا شوہرکا انتقال ہوجائے، تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہرکے ساتھ سائلہ دوبارہ  نکاح کرسکتی ہے۔

            فتاوی شامی میں ہے:

"و البدعي ثلاث متفرقة ... قوله: ثلاث متفرقة و كذا بكلمة واحدۃ بالأولی ... إلیقوله:و ذهب جمھور الصحابة و التابعین و من بعدهم من أئمة المسلمین إلی أنه یقع ثلاث."

(ج: 3 ،ص: 232/233 ،کتاب الطلاق ،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(ج: 1 ، ص: 472،فصل فیما تحل بہ المطلقۃ  و ما یتصل بہ، ط:ماجدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں