میری شادی کو 19 سال قبل ہوئی تھی،اب کچھ عرصہ سے تقریباًتین چار سال سے گھر میں لڑائی جھگڑا چل رہے ہیں،ایک ہفتہ قبل ہم دونوں میاں بیوی اور ہماری بیٹی موبائل پر فنی ویڈیوز دیکھ رہےتھے کہ میرے شوہر نے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ،چٹکی کاٹی ،تو میں نے کہا مت کرو،تو انہوں نے کہا بھاگ جاؤکسی کے ساتھ،میری بیٹی نے کہا کہ آپ اس کو طلاق دے دو،تو انہوں نے کہا گواہ لے آؤ،میری بیٹی نے کہا کہ میں پانچ گواہوں کے برابر ہوں ، پھر شوہر نےکہا" طلاق طلاق طلاق "اب ہمارے لیے شرعی حکم کیا ہے،شوہر کہتے ہیں کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا ، میری آنکھوں کے سامنےاندھیرا آگیا تھا،مجھے کچھ پتا نہیں میں نے کیا کہا ،اب ہمارے لیے شرعی حکم کیا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں شوہر کا بیٹی کے مطالبہ پرسائلہ کو "طلاق طلاق طلاق" کے الفاظ کہنے سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،جس وقت شوہر نے یہ الفاظ کہے ہیں،اس وقت سے میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوگیاہے، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے اب رجوع جائز نہیں ہےاور اور نہ دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ، لہذا سائلہ عدت (اگرحمل ہے تو بچہ کی پیدائش تک اور اگر حمل نہیں ہے تو مکمل تین ماہواریاں ) گزار کردوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ "(البقرة: 229،230)
’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ... پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔‘‘ ) ترجمہ از بیان القرآن)
درمختار میں ہے:
"كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين."
(کتاب الطلاق ، باب صريح الطلاق ، ج : 3 ، ص : 293 ، ط: دارالفکر)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
" (سوال ) زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر ، یہ الفاظ کہے طلاق ، طلاق ، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلاجاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا ، آیا یہ طلاق ہو گئی یا نہیں؟
(جواب) موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلثہ ہو گئی ۔ویؤیدہ ما فی البحر لو قال امرأة طالق اوقال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم اعن امرأتي يصدق او يفهم منه انه لولم يقل ذلك تطلق امرأته لان العادة ان من له امرأة انما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها ."
(کتاب الطلاق ، ج :9، ص : 195 ، دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100388
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن