بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین تھنوں والی بکری کی قربانی کا حکم


سوال

جس بکری کے تین تھن ہوں اور تینوں سے دودھ آتا ہو اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟

جواب

قربانی کے جانور کا بے عیب ہونا  شرعا ضروری ہوتا ہے،پس عیوبات کی ایک قسم تو وہ ہے، جس کی صراحت فرامین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے، جیسے جانور کا اندھا ہونا، چلنے کے قابل نہ ہونا، وغیرہ، جبکہ دوسری قسم وہ ہے کہ جس کی صراحت احادیث میں تو نہیں ملتی، البتہ فقہاء کرام نے احادیث میں مذکور عیوبات میں غور کر کے  قربانی کے جانور کے حوالہ سے  ضابطہ بیان کیا ہے کہ :

"کسی جانور میں  ایسا عیب اگر پایا جائے  جو جانور کی بالکلیہ منفعت اس طور پر   زائل کردے کہ اس عیب کا اثر جانور کے گوشت میں ظاہر ہوتا ہو یا اس عیب کی وجہ سے جانور کا حسن بالکلیہ متأثر ہوتا ہو ، تو  ایسے عیب دار  جانور کی قربانی جائز نہیں"۔

پس اس ضابطہ کی روشنی میں تین تھنوں والی بکری کی قربانی جائز معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ ہماری معلومات و تحقیق کے مطابق بکری میں  تین تھنوں کا ہونا  بھیڑ بکری کی تجارت کرنے والوں کی نزدیک عیب شمار نہیں ہوتا، نیز ایک زائد تھن کا ہونا، بکری کی خوبصورتی میں کمی کا سبب بھی نہیں، کیوں  کہ فقہاء کرام کے نزدیک جمال ایک ایسی صفت ہے، جو باعث رغبت ہو، جبکہ عیب ایک ایسی صفت ہے، جو بے رغبتی کا سبب ہو، جس کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں کمی آتی ہو، جبکہ تین تھنوں والی بکری  کی قیمت میں زائد تھن کی وجہ سے کمی نہیں آتی، لہذا ایسی بکری کی قربانی جائز ہوگی،تاہم تین تھنوں والی بکری کی قربانی کے حوالے سے کوئی صریح جزئیہ چونکہ  کتب فقہ و فتاوی میں نہ مل سکا،  لہذا  قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اس میں ایسا جانور ذبح کرنا چاہئے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو ، جب غیر مشتبہ جانور بآسانی دستیاب ہوسکتے ہیں، تو اس قسم کے  جانور کو ذبح نہ کرنے میں احتیاط ہے اپنی عبادت کو بلا مجبور ی مشتبہ بنانا مناسب نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع، ثم كل عيب يمنع الأضحية ففي حق الموسر يستوي أن يشتريها كذلك أو يشتريها وهي سليمة فصارت معيبة بذلك العيب لا تجوز على كل حال، وفي حق المعسر تجوز على كل حال، كذا في المحيط."

(كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، ٥ / ٢٩٩، ط: دار الفكر)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ومن المشايخ من يذكر هذا الفصل أصلا، ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال، أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع."

( كتاب الأضحية، الفصل الخامس في بيان ما يجوز في الضحايا وما لا يجوز، وفي بيان المستحب، والأفضل منها، ٦ / ٩٣، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

" ثم الأصل أن العيب الفاحش مانع لقوله تعالى: { ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون} [البقرة: ٢٦٧] واليسير من العيب غير مانع؛ لأن الحيوان قلما ينجو من العيب اليسير فاليسير ما لا أثر له في لحمها."

( كتاب الذبائح، باب الأضحية، بيع جلد الأضحية بعد الذبح،١٢ / ١٥، ط: دار المعرفة - بيروت)

المنثور في القواعد الفقهية للزركشي میں ہے:

" العيوب المعتبرة شرعا ثمانية أقسام... الخامس - عيب الأضحية والهدي والعقيقة ما ينقص اللحم."

( حرف العين المهملة، العيوب المعتبرة شرعا، ٢ / ٤٢٥، ط: وزارة الأوقاف الكويتية)

التعريفات للجرجاني میں ہے:

"الجمال من الصفات: ما يتعلق بالرضا واللطف."

( باب الجيم، ص: ٧٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت -لبنان)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

العيب هو لغة ما يخلو عنه أصل الفطرة السليمة.

وشرعا ما أفاده بقوله (من وجد بمشريه ما ينقص الثمن) ولو يسيرا جوهرة (عند التجار)

المراد أرباب المعرفة بكل تجارة وصنعة قاله المصنف

(قوله وشرعا ما أفاده إلخ) أي المراد في عرف أهل الشرع بالعيب الذي يرد به المبيع ما ينقص الثمن أي الذي اشترى به كما في الفتح، قال؛ لأن ثبوت الرد بالعيب لتضرر المشتري وما يوجب نقصان الثمن يتضرر به. اهـ وعبارة الهداية: وما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب؛ لأن التضرر بنقصان المالية وذلك بانتقاص القيمة. اهـ ومفاده أن المراد بالثمن القيمة؛ لأن الثمن الذي اشتراه به قد يكون أقل من قيمته بحيث لا يؤدي نقصانها بالعيب إلى نقصان الثمن به. والظاهر أن الثمن لما كان في الغالب مساويا للقيمة عبروا به تأمل. والضابط عند الشافعية أنه المنقص للقيمة أو ما يفوت به غرض صحيح بشرط أن يكون الغالب في أمثال المبيع عدمه، فأخرجوا بفوات الغرض الصحيح ما لو بان فوات قطعة يسيرة من فخذه أو ساقه، بخلاف ما لو قطع من أذن الشاة ما يمنع التضحية فله ردها، وبالغالب ما لو كانت الأمة ثيبا مع أن الثيابة تنقص القيمة لكنه ليس الغالب عدم الثيابة. اهـ قال في البحر: وقواعدنا لا تأباه للمتأمل. اهـ.

قلت: ويؤيده ما في الخانية: وجد الشاة مقطوعة الأذن إن اشتراها للأضحية له الرد، وكذا كل ما يمنع التضحية وإن لغيرها فلا ما لم يعده الناس عيبا، والقول للمشتري أنه اشتراها للأضحية لو في زمانها وكان من أهل أن يضحي. اهـ. ... (قوله بكل تجارة) الأولى من كل تجارة. قال ح: يعني أنه يعتبر في كل تجارة أهلها وفي كل صنعة أهلها."

( كتاب البيوع، باب خيار العيب، ٥ / ٣ - ٥، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں