میری بہو گزشتہ آٹھ ماہ پہلے اپنے میکے گئی تھی، واپس نہیں آرہی تھی، میرا بیٹا اس کو لینے گیا تو اس نے آنے سے انکار کردیا، اور میرے بیٹے سے طلاق کا مطالبہ کیا، تو بیٹے نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ایک طلاق دی ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘تو بیٹے کے سسر نے غصہ میں کھڑے ہوکر کہا ایک کیوں؟ تین ہی دے دو! تو بیٹےنے کہاٹھیک ہےتو پھر تین دیتا ہوں! اور پھر تین مرتبہ وہی الفاظ دہرائے۔
دریافت طلب مسئلہ ہے کہ:
1۔اب دوبارہ دونوں اکٹھے رہنا چاہتے ہیں، شرعی لحاظ سے اس کا کیا حکم ہے؟
2۔ان کے دو بچے بھی ہیں ، آٹھ سال کی بیٹی اورسات سال کا بیٹا، بہو بچوں سے ملنے نہیں دیتی اس کا کیا حکم ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
1۔صورتِ مسئولہ میں مجموعی طور پر سائلہ کی بہو پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ٹوٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے شوہر کے لیے مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں، پس مطلقہ بیوی اپنی عدت ( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور ماہواری آتی ہو، اگر ماہواری نہ آتی ہو تو تین ماہ، اور اگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، دوسری جگہ نکاح اور ہمبستری (یعنی جسمانی تعلق)کے بعد اگر دوسرا شوہر اسے طلاق یا خلع دے دےیا اس کا انتقال ہوجائے اور وہ عدت گزار کر فارغ ہو جائے،تو پھر سائلہ کے مذکورہ بیٹے کے لیے اپنی سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
2۔میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں بچوں کی عمر سات سال اوربچیوں کی عمر نو سال ہونے تک ان کی پرورش کا حق ان کی والدہ کو حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد والد پنی اولاد کی تربیت کا شرعاً حق دار ہوتا ہے۔
لہذا مذکورہ صورتِ مسئولہ میں بیٹے کی عمر اگر سات سال مکمل ہوچکی ہے،تو والد اسے اپنے زیرِ تربیت رکھنے کا حق دار ہوگا، اور جب بیٹی کی عمر نو سال مکمل ہوجائے تو اسے بھی اپنے زیرِ تربیت رکھنے کا حق والد کو حاصل ہوگا، بہر صورت بچے والد، یا والدہ میں سے جس کے بھی ساتھ رہیں والدین میں سے ہر ایک کو ان سے ملنے کا حق ہوگا، ملاقات پر پابندی عائد کرنا شرعاً درست نہیں۔
قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
"{فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ."[البقرة: 230]
ترجمہ: پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ نکاح کرلے۔ پھر اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں، بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانش مند ہیں۔ (بیان القرآن)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}."
(کتاب الطلاق،فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الحضانة، ج:1، ص:543، ط:رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607103031
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن