اشفاق نے اپنی بیوی کو سالوں کی مار کی وجہ سے تین بار طلاق دی غصے میں، اور پھر اہل حدیث کے مفتی کے مطابق درست جائز قرار دے کر پھر اکٹھا رہنے لگا ، اور فتوی جاری کر دیا۔
تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد کسی سے غلط فتویٰ لینے سے تین طلاقیں ختم نہیں ہوتیں، اس لیے کہ از روئے قرآن و حدیث اور چاروں ائمہ کرام کے ہاں تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں۔
حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے کہ قیامت کے قریب ایسا بھی ہوگا کہ لوگ اپنی بیویوں سے زنا کریں گے،یعنی بیوی کو طلاق دینے کے باوجود اس سے خواہش پوری کریں گے۔
نیز فقہائے کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں جو محض اپنی غرض کو پورا کرنے کے لیے مسلک بدلتے ہیں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ موت کے وقت ان کے ایمان کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہے۔
المعجم الکبیر میں ہے :
"قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: "يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما".
(باب العين ، باب ج: 10 ص: 228 ط: مكتبة ابن تيمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ارتحل إلی مذهب الشافعي یعزر) أي إذا کان ارتحاله لالغرض محمود شرعاً لما في التاتارخانیة: حکي أن رجلًا من أصحاب أبي حنیفة خطب إلی رجل من أصحاب الحدیث ابنته في عهد أبی بکر الجوزجاني فأبی إلا أن یترك مذهبه فیقرأ خلف الإمام ویرفع یدیه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشیخ بعد ما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النکاح جائز، ولکن أخاف علیه أن یذهب إیمانه وقت النزع؛ لأنه استخفّ بمذهبه الذي هو حقّ عنده وترکه لأجل جیفة منتنة ... أما انتقال غیره من غیر دلیل بل لما یرغب من غرض الدنیا وشهوتها فهو مذموم الآثم المستوجب للتأدیب والتعزیر، لارتکابه المنکر في الدین واستخفافه بدینه ومذهبه الخ ملخصًا".
(كتاب الحدود ، باب التعزیر ج: 4 ص: 80 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102574
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن