بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

15 سال پہلے تین طلاق دینے کے باوجود دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنے کا حکم


سوال

آج سے 15 سال پہلے میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ، الفاظ یہ تھے کہ " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، آزاد کرتا ہوں"، اس کے بعد شوہر نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا،  اس سے طلاق نہیں ہوتی،پھر ایک مولوی صاحب نے ہمارا نکاح پڑھایا اور ہم ایک ساتھ رہنے لگے، اس کے چار سال بعد پھر دوبارہ شوہر نے مجھے ایک ساتھ تین طلاق دی، الفاظ یہ تھے " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،  طلاق دیتا ہوں،  طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد میں والد صاحب کے پاس گئی، والد صاحب نے کہاکہ اس طرح طلاق واقع نہیں ہوتی، ہم دوبارہ بغیر نکاح کیے ساتھ رہنے لگے، آج سے آٹھ دن پہلے شوہر نے پھر مجھ سے کہا" میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، آزاد کرتا ہوں،جہاں جانا چاہتی ہو چلی جاؤ"۔ سوال یہ ہے کہ میرا نکاح باقی ہے یا ختم ہوچکا ہے؟

جواب

ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، لہٰذاصورتِ مسئولہ میں آپ کے شوہر نے 15 سال پہلے جس وقت پہلی مرتبہ آپ کو طلاق کے یہ الفاظ بولے تھے کہ "  میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، آزاد کرتا ہوں" تو ان الفاظ کی وجہ سے اسی وقت آپ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور نکاح توٹ گیا تھا، آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوگئی تھی، اس کے بعد رجوع کر کے یا دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز نہیں تھا،   اس لیے آپ دونوں تین طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کر کے  جتنا عرصہ ساتھ رہے وہ ناجائز تعلقات  کے زمرے میں آئے گا، دونوں پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں اور اپنے اس فعل پر اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے توبہ و استغفار کر کے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا کوئی فعل نہ کرنے کا پکا عزم کریں، اور علیحدگی اختیار کرنے کے بعد عدت گزارنی لازم ہے، اگر حاملہ ہے تو وضعِ حمل تک ورنہ تین ماہواری عدت ہے۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا."

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1/ 349، ط: رشيدية)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

 "فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معًا وإِن كانت معصية."

(ج:1، ص:529 ، ط: قدیمی)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والموطوءة بشبهة) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء، وللموطوءة بشبهة أن تقيم مع زوجها الأول وتخرج بإذنه في العدة؛ لقيام النكاح بينهما، إنما حرم الوطء حتى تلزمه نفقتها وكسوتها، بحر، يعني إذا لم تكن عالمةً راضيةً كما سيجيء... (الحيض للموت) أي موت الواطئ (وغيره) كفرقة، أو متاركة لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا (ولا اعتداد بحيض طلقت فيه) إجماعا (وإذا وطئت المعتدة بشبهة)  ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى) لتجدد السبب (وتداخلتا، والمرئي) من الحيض (منها، و) عليها أن (تتم) العدة (الثانية إن تمت الأولى) وكذا لو بالأشهر، أو بهما لو معتدة وفاة.

 (قوله: الحيض) جمع حيضة أي عدة المذكورات ثلاث حيض إن كن من ذوات الحيض وإلا فالأشهر، أو وضع الحمل ... (قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لاتجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثًا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لاتستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرًا طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال، ثم وطئها في العدة عالمًا بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لايقع فيها طلاق آخر ولاتجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر."

(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة، 3 / 517، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) مبدؤها (في النكاح الفاسد) بعد التفريق من القاضي بينهما، ثم لو وطئها حدّ، جوهرة وغيرها، وقيده في البحر بحثا بكونه بعد العدة لعدم الحد بوطء المعتدة (أو) المتاركة أي (إظهار العزم) من الزوج (على ترك وطئها) بأن يقول بلسانه: تركتك بلا وطء ونحوه، ومنه الطلاق وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا، لا مجرد العزم لو مدخولة وإلا فيكفي تفرق الأبدان.

(قوله: ومبدؤها في النكاح الفاسد بعد التفريق إلخ) وقال زفر: من آخر الوطآت لأن الوطء هو السبب الموجب. ولنا أن السبب الموجب للعدة شبهة النكاح ورفع هذه الشبهة بالتفريق، ألا ترى أنه لو وطئها قبل التفريق لا يجب الحد وبعده يجب، فلا تصير شارعة في العدة ما لم ترتفع الشبهة بالتفريق كما في الكافي وغيره. اهـ. سائحاني.

قلت: ولم أر من صرح بمبدإ العدة في الوطء بشبهة بلا عقد. وينبغي أن يكون من آخر الوطآت عند زوال الشبهة، بأن علم أنها غير زوجته، وأنها لاتحل له إذ لا عقد هنا فلم يبق سبب للعدة سوى الوطء المذكور كما يعلم مما ذكرنا، والله أعلم."

(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب في وطء المعتدة بشبهة، 3 / 522، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں