آج سے نو ماه قبل ميں گھر سے باہر نكلا كہيں جانے كےلیے، ميں نے ويرانے ميں قضائے حاجت كی، جس كی وجہ سے مجھ پر اثرات ہوگئے، میرے گھر میں میری بیوی، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، میری بیوی مجھے اپنے قریب آنے نہیں دیتی، جب بھی مجھے خواہش ہوتی ہے اور میرا موبائل چیک کرتی ہے، میری بیوی، بیٹی اور بیٹا مجھ پر تشدد کرتےہیں، حتی کہ لوہے کے پائپ اور گرم استری سے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا ہے، میری اور میری بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی تو بڑی بیٹی نے کہا کہ آپ ماں کو طلاق دے دیں، جس پر مجھے غصہ آگیا، آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور میں نے اپنی بیوی کو ان الفاظ سے "میں اللہ کو حاضر ناظر جان کے طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں" اور اس واقعہ سے چار پانچ سال پہلے میں نے اپنی بیوی کو ان الفاظ " میں طلاق دیتا ہوں" سے طلاق دی تھی، اس کےفورا بعد ہم نے رجوع کرلیا تھا، کیا میری بیوی اور بچوں کا مجھ پر تشدد کرنا درست تھا؟کتنی طلاق واقع ہوئی ہیں؟ اب رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟ رجوع کی کیا صورت ہے؟ میرے گھر والوں نے مجھےگھر سے نکال دیا ہے، کیا ان کا یہ سلوک میرے ساتھ ٹھیک ہے؟
نوٹ: ہمارا گھر کرایہ کا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نےاپنی بیوی کو ان الفاظ سے " میں طلاق دیتا ہوں"، طلاق دی تھی ، پھر رجوع کرلیا تھا، تو اس کے بعد شوہر کو دو طلاق کا اختیار تھا، لیکن پھر جب شوہر نےاپنی بیوی کو یہ الفاظ "میں اللہ کو حاضر ناظر جان کے طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں" کہے تو اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے اور وہ اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے ،عورت عدت ( تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کےلیے آزاد ہوگی، لہٰذا اب ساتھ رہنے یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے ۔
شریعتِ مطہر ہ نے اولاد پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم کیا ہے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، ان کی خدمت و اطاعت کو جنت میں داخلے اور نافرمانی و بد سلوکی کو جہنم کے مستحق بننے کا ذریعہ بتا یا ہے، والدین کی نافرمانی ، ایذاء رسانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی و بد کلامی حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اس پرشدیدوعیدیں ارشادفرمائی گئی ہیں۔
کسی انسان کو تکلیف دینا اور اس کو بلا عذر مارناجائز نہیں، چہ جائے کہ والد جیسی ہستی کو مارا جائے اور اس کو گھر سے باہر نکال دیا جائے، یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے، لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل پر اللہ سے اور اپنی والد سے معافی مانگیں، والد کی خدمت کریں،ان کا سہارا بنیں ، جیساکہ بچپن میں وہ ان کا سہارا بنے تھےاور مشقتیں اٹھا کر ان کو پالا تھا، ورنہ کہیں آخرت بلکہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔
اگر والد مذکور صاحب استطاعت اور مالک نصاب ہے تو بیٹے پر ان کانان و نفقہ لازم نہیں ہے، لیکن اگر مالک نصاب نہیں ہے، اس کے پاس اپنے اخراجات کے لیے مال نہیں ہے تو اس کے مالک نصاب صاحب استطاعت موسر بیٹے پر اس کانان و نفقہ دینا واجب ہے، اگرچہ والد کمائی کے قابل ہو، اسی طرح اگر ایک شخص کے کئی بیٹے اور بیٹیاں مال دار ہوں تو ان سب پر برابر سرابراپنے والد کا نان و نفقہ لازم ہوگا، لہٰذا صورت مسئولہ میں والد کا نان و نفقہ مالک نصاب صاحب استطاعت موسر بیٹے یا اگر ساری اولاد مال دار ہے تو سب پر برابر سرابر لازم ہے۔
بیوی کا شوہر سے بدزبانی اور بد کلامی کرنا ناجائز اور حرام ہےاور اس کا شوہر پر ہاتھ اٹھانا کسی صورت جائز نہیں ہے، کیوں کہ شوہر کا بیوی پر بہت بڑا حق ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر میں کسی کو دوسرے کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے،نیز بیوی کو چاہیے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور اپنے شوہر سے بھی معافی مانگے ،باقی شوہر کو بھی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے عورت کے جذبات اس حد تک مجروح ہوجائیں کہ وہ ہاتھ اٹھانے پر آجائے ۔
قرآن کریم میں ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ." ﴿البقرة: ٢٣٠﴾
ترجمه:" پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دےدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے پھر اگر یہ اس کو طلاق دےدے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو دانشمند ہیں۔"(بیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره أي أنه إذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما أرسل عليها الطلاق مرتين، فإنها تحرم عليه حتى تنكح زوجا غيره، أي حتى يطأها زوج آخر في نكاح صحيح، فلو وطئها واطئ في غير نكاح ولو في ملك اليمين، لم تحل للأول، لأنه ليس بزوج".
(تفسير سورة البقرة،الآية:230، ج:1، ص:469، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا".
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:472، ط: دار الفكر)
وفیہ أیضاً:
"ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا بخلاف الحربيين المستأمنين، ولا يشارك الولد الموسر أحدا في نفقة أبويه المعسرين كذا في العتابية. اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وعليه الفتوى والنصاب نصاب حرمان الصدقة هكذا في الهداية.
وإذا اختلطت الذكور والإناث فنفقة الأبوين عليهما على السوية في ظاهر الرواية، وبه أخذ الفقيه أبو الليث، وبه يفتى كذا في الوجيز للكردري، وإن كان للفقير ابنان أحدهما فائق في الغنى والآخر يملك نصابا كانت النفقة عليهما على السواء،ولو كان أحدهما مسلما والآخر ذميا كانت النفقة عليهما على السواء كذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام شمس الأئمة قال مشايخنا - رحمهم الله تعالى - إنما تكون النفقة عليهما على السواء إذا تفاوتا في اليسار تفاوتا يسيرا، وأما إذا تفاوتا تفاوتا فاحشا فيجب أن يتفاوتا في قدر النفقة كذا في الذخيرة".
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، ج:1، ص:564، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(النفقة لأصوله) ولو أب أمه ذخيرة (الفقراء) ولو قادرين على الكسب والقول لمنكر اليسار والبينة لمدعيه (بالسوية) بين الابن والبنت، وقيل كالإرث، وبه قال الشافعي. (والمعتبر فيه القرب والجزئية)".
"(قوله النفقة) أشار إلى أن جميع ما وجب للمرأة وجب للأب والأم على الولد من طعام وشراب وكسوة وسكنى حتى الخادم بحر".
(باب النفقة، مطلب في نفقة الأصول، ج:3، ص:623، ط: سعيد)
سنن ترمذی میں ہے:
"1159 - حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا النضر بن شميل قال: أخبرنا محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها".
(أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، ج:3، ص:457، ط: مصطفى البابي الحلبي)
قرآن کریم میں ہے:
وَقَضى رَبُّكَ أَلَاّ تَعْبُدُوا إِلَاّ إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما وَقُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيماً[الآية:23]
ترجمہ:" اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرواگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا"۔(بیان القرآن)
معارف القرآن میں ہے:
معارف و مسائل :
والدین کے ادب واحترام اور اطاعت کی بڑی اہمیت :
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورۃ لقمان میں اپنے لشکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ (یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ نماز اپنے وقت (مستحب ) میں اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک (قرطبی)
والدین کی اطاعت وخدمت کے فضائل روایات حدیث میں :
(١) مسند احمد ترمذی ابن ماجہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح حضرت ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا ضائع کر دو (مظہری)
(٢) اور جامع ترمذی ومستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی روایت ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی رضاء باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ۔
(٣) ابن ماجہ نے بروایت حضرت ابو امامہ (رض) نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں ہی تیری جنت یا دوزخ ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت وخدمت جنت میں لی جاتی ہے اور ان کی بےادبی اور ناراضی دوزخ میں ۔
(٤) بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور جو ان کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہی تھا تو ایک دروازہ (جنت یا دوزخ کا کھلا رہے گا) اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ (یہ جہنم کی وعید) کیا اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس شخص پر ظلم کیا ہو تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا وان ظلما وان ظلما وان ظلما (یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذا رسانی پر جہنم کی وعید ہے خواہ ماں باپ نے ہی لڑکے پر ظلم کیا ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں کہ انہوں نے ظلم کیا تو یہ بھی ان کی خدمت واطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں)
(٥) بیقہی نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو خدمت گذار بیٹا اپنے والدین پر رحمت وشفقت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب پاتا ہے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرلے آپ نے فرمایا کہ ہاں سو مرتبہ بھی (ہر نظر پر یہی ثواب ملتا رہے گا) اللہ تعالیٰ بڑا ہے (اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی ) ۔
والدین کی حق تلفی کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملتی ہے :
(٦) بہیقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی بکرہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سب گناہوں کی سزاء تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک مؤ خر کر دیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے کہ اس کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے (یہ سب روایات تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں)
والدین کی اطاعت کن چیزوں میں واجب ہے اور کہاں مخالفت کی گنجائش ہے :
اس پر علماء وفقہاء کا اتفاق ہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے ناجائز یا گناہ کے کام میں اطاعت واجب تو کیا جائز بھی نہیں حدیث میں ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (یعنی خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں )
والدین کی خدمت اور اچھے سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں :
امام قرطبی نے اس مسئلہ کی شہادت میں حضرت اسماء (رض) کا یہ واقعہ صحیح بخاری سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء (رض) نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفتار کیا کہ میری والدہ جو مشرک ہے مجھ سے ملنے کے لئے آتی ہے کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں اس کی خاطر مدارت کروں آپ نے فرمایا صلی امک (یعنی اپنی ماں کی صلہ رحمی اور خاطر مدارات کرو) اور کافر ماں باپ کے بارے میں خود قرآن کریم کا یہ ارشاد موجود ہے ۔ (آیت) وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا یعنی ماں باپ کافر ہوں اور اس کو بھی کافر ہونے کا حکم دیں تو ان کا اس معاملے میں حکم ماننا تو جائز نہیں مگر دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقہ کا برتاؤ کیا جائے ظاہر ہے کہ معروف طریقہ سے یہی مراد ہے کہ ان کے ساتھ مدارات کا معاملہ کریں ۔
مسئلہ : جب تک جہاد فرض عین نہ ہو جائے فرض کفایہ کے درجے میں رہے اس وقت تک کسی لڑکے کے لئے بغیر ان کی اجازت کے جہاد میں شریک ہو جانا جائز نہیں صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شریک جہاد ہونے اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا ففیھما فجاہد یعنی بس تو اب ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو مطلب یہ ہے کہ ان کی خدمت ہی میں تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا دوسری روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ اس شخص نے یہ بیان کیا کہ میں اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں اس پر آپ نے فرمایا کہ جاؤ ان کو ہنساؤ جیسا کہ ان کو رلایا ہے یعنی ان سے جا کر کہہ دو کہ میں آپ کی مرضی کے خلاف جہاد میں نہیں جاؤں گا (قرطبی)
مسئلہ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز فرض عین یا واجب علی العین نہ ہو کفایہ کے درجہ میں ہو تو اولاد کے لئے وہ کام بغیر ماں باپ کی اجازت کے جائز نہیں اس میں مکمل علم دین حاصل کرنا اور تبلیغ دین کے لئے سفر کرنے کا حکم بھی شامل ہے کہ بقدر فرض علم دین جس کو حاصل ہو وہ عالم بننے کے لئے سفر کرے یا لوگوں کو تبلیغ ودعوت کے لئے سفر کرے تو بغیر اجازت والدین کے جائز نہیں ۔
مسئلہ : والدین کے ساتھ جو حسن سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں آیا ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں سے والدین کی قرابت یا دوستی تھی ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کرے خصوصا ان کی وفات کے بعد صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ کے ساتھ بڑا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور حضرت ابو اسید بدری (رض) نے نقل کیا ہے کہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا تھا ایک انصاری شخص آیا اور سوال کیا یارسول اللہ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئی حق میرے ذمہ باقی ہے آپ نے فرمایا ہاں ان کے لئے دعاء اور استغفار کرنا اور جو عہد انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا جن کا رشتہ قرابت صرف انھیں کے واسطے سے ہے والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمہ باقی ہیں ۔
آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ حضرت خدیجہ ام المؤ منین کی وفات کے بعد ان کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ بھیجا کرتے تھے جس سے حضرت خدیجہ کا حق ادا کرنا مقصود تھا ۔
والدین کے ادب کی رعایت خصوصا بڑھاپے میں :
والدین کی خدمت واطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے لیکن واجبات وفرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃ رکاوٹ بنا کرتے ہیں ان حالات میں قرآن حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ احکام پر عمل کو آسان کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا اور ایسے حالات میں تعمیل احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی ۔
والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بےرخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطالبات کچھ ایسے بھی ہو جاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت وخواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل وشرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ اداء کرو آیت میں (آیت) كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آیات مذکورہ میں والدین کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام دیئے گئے ہیں ۔
اول یہ کہ ان کو اف بھی نہ کہے لفظ اف سے مراد ہر ایسا کلمہ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو یہاں تک کہ ان کی بات سن اس طرح لمبا سانس لینا جس سے ان پر ناگواری کا اظہار ہو وہ بھی اسی کلمہ اف میں داخل ہے ایک حدیث میں بروایت حضرت علی (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ایذا رسانی میں اف کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقینا وہ بھی ذکر کیا جاتا (حاصل یہ ہے کہ جس چیز سے ماں باپ کو کم سے کم بھی اذیت پہنچے وہ بھی ممنوع ہے)
دوسراحکم ہے وَلَا تَنْهَرْهُمَا لفظ لفظ لہم کے معنی جھڑکنے ڈانٹنے کے ہیں اس کا سبب ایذاء ہونا ظاہر ہے تیسرا حکم (آیت) وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ہے پہلے دو حکم منفی پہلو سے متعلق تھے جن میں والدین کی ادنی سے ادنی بار خاطر کو روکا گیا ہے اس تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کے ساتھ گفتگو کا ادب سکھلایا گیا ہے کہ ان سے محبت وشفقت کے نرم لہجہ میں بات کی جائے حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا جس طرح کوئی غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے ۔
(سورۂ بنی اسرائیل، آیت :23، ج:5، ص: 462/466، ط: مکتبہ معارف القرآن)
سنن ترمذی میں ہے:
1899 - "حدثنا أبو حفص عمرو بن علي قال: حدثنا خالد بن الحارث قال: حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد".
وفیہ أیضاً:
1900 - "حدثنا ابن أبي عمر قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن أبي الدرداء، أن رجلا أتاه فقال: إن لي امرأة وإن أمي تأمرني بطلاقها، قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه".
(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، ج:4، ص:310/311، ط: مصطفى البابي الحلبي)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
3662 - "حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا صدقة بن خالد قال: حدثنا عثمان بن أبي العاتكة، عن علي بن يزيد، عن القاسم، عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك".
(كتاب الأدب، باب برالوالدين، ج:2، ص:1208، ط: دار إحياء الكتب العربية)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
4943 -[33]"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: «وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه".
وفیہ أیضاً:
4945 -[35] "وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات".
(كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:3، ص:1382/1383، ط: المكتب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100377
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن