بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق / تین طلاق کے بعد بھی ساتھ رہنا


سوال

 سال 2018 میں شریعت  محمدی کے عین مطابق گواہان کی موجودگی میں میرا نکاح اپنے خالہ زادسے قرار پایا، نکاح کے بعد چند ایام گزرجانے کے باوجود میرے شوہرکا رویہ اور برتاؤ غیر ذمہ دارانہ رہا اور مجھ سے صحبت(ہمبستری) کرنے  سے گریز کیا گیا، شوہر روزانہ کی بنیاد پر رات کی تاریکی میں نشہ   کی حالت میں واپس گھر پلٹتے تھے،  نکاح سے قبل میرے شوہر  کا کسی خاتون سے کسی حدتک تعلق تھا،  جس کا اظہار بھی کیا گیا اور مجھے خود اس خاتون سے اکثر ملوایا بھی اور مجھ سے نکاح کے بعد بیزاری کا اظہار کیا  ، ایک رات میرے شوہر  اپنی روزمرہ مصروفیات   کے مطابق رات کی تاریکی میں لوٹے، جس پر ان سے تاخیر کی بابت سوال کیا، انھوں نے  غصہ  کا اظہار کیا ، جس پر میں  اپنا بستر علیحدہ کرکے سوگئی، اگلی صبح ناشتے کے دوران اپنے  شوہر سے ان کے رویہ  اور خاتون کی بابت سوال دہرایا، جس پر میرے شوہر نے   طیش میں آکر کہا کہ میں تجھے اس رشتے سے آزاد کرتا ہوں اور یک مشت تین طلاقیں   دے  کر مجھے اور میری والدہ کو گالیاں دے کر مجھ پر تشدد کرنا شروع کردیا، اس موقع پر میری ساس (خالہ) ، ماموں ، مالک مکان خاتون اور ان کا ایک بیٹا (عمر اس وقت 14 سے 15 سال ہوگی) موجود تھے، میرے شوہر نے تین طلاقیں دینے  کے بعد مجھ پر تشدد کیا تو میری حالت انتہائی    غیر ہوگئی اور تقریبا بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی ،جسکا اثر آج بھی قائم و دائم ہے ، طلاق کی ادائیگی اور تشدد کے بعد میرے ماموں مجھے کسی نہ کسی طرح والدہ کے گھر لے گئے ۔

تین طلاقوں کی بابت اپنی والدہ اور بھائی  کو آگاہی دی، چند دن بعد میرے شوہر والدہ کے گھر آئے اور مجھ سے معافی  طلب کی  اور کہا کہ میں نے  قریبی مسجد کے امام سےغصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے حوالے سے معلوم کیا ہے، امام صاحب کا کہنا ہے  کہ  غصہ  کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں  ہوتی ،  بیوی سے معافی مانگ کر دوبارہ رجوع کیا جاسکتا ہے، جس پر والدہ اور بھائی کے کہنے  پر واپس اپنے شوہر سے رجوع(ہمبستری) کیا، جب کہ طلاق  سے قبل ہمبستری کی نوبت نہیں  آئی  تھی۔

اس واقعہ  کے بعد سے لے کر آج تک میرے شوہر کا مجھ پر تشدد کرنا اور نان نفقہ کی ذمہ  داریوں سے کنارہ کشی کرنا ایک معمول بن چکا ہے، میں کئی کئ مہینوں اپنی والدہ کے گھر آکر ٹھہر جاتی   ہوں اور آج بھی شوہر کو  مجھ سے رجوع کیے ہوئے آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت  گیا ہے، میں اپنے شوہر کے ذہنی و عملی کردار سے مطمئن نہیں ہوں اور متعدد دفعہ طلاق (خلع) مانگ چکی ہوں، لیکن حامی بھرکر انکاری ہوجاتے  ہیں  اور رشتہ داران کی جانب سے مصلت پسندی کے تحت دوبارہ رجوع کرنے کے لیے  قائل کرنا بھی ایک معمول بن چکا ہے،شوہر کا موجودہ رویہ اپنی جگہ لیکن میں ماضی میں دی گئی تین  طلاقوں سے متعلق ابہام کا شکار ہوں، جبکہ والدہ سمیت سب جوبھی اس معاملے سے آگاہی رکھتے ہیں ، بد قسمتی سے شرعیت محمدی سے لاعلم ہیں اور مصلحت پسندی کے تحت من گھڑت طور پر اپنے فیصلے مسلط کرچکے ہیں  اورآج تک کوششوں  میں عمل پیرا ہیں،  جبکہ اس بابت آج تک تمام افراد میں سے کوئی  ایک فرد بھی کسی بھی قسم کا مستند تحریری فتوی  پیش کرنے سے قاصر ہے،  میں اللہ رب العزت کی ذات مبارکہ کو گواہ  بنا کر  حلفا اقرار کرتی ہوں  کہ تشدد سے قبل میرا شعور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ موقع پر موجود گواہان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ضرور سنا تھا  کہ میرے شوہر  نے غصہ  کی شدید حالت میں آنے اور تشدد سے قبل یک مشت تین طلاقیں دی تھیں، لیکن موقع پر موجود گواہان مصلحت پسندی کے تحت گواہی   دینے سے انکار اور  لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں، (اللہ رب العزت کی ذات مبارکہ ہر بات سے باخبر ہے) چند مسائل درج ذیل ہیں، جن کی بابت درج بالا حقائق کی روشنی میں شرعیت محمدی کے عین مطابق جوابات/ تحریری فتوی درکار ہے:

 01: ماضی میں غصہ  کی حالت میں (شعوری طور پر )  دی گئی یک مشت تین طلاقوں کی بابت شرعیت محمدی کے کیا احکامات ہیں؟

02:اگر ماضی میں دی گئی طلاق شرعیت محمدی کے عین مطابق واقع ہوچکی تھی تو اس گناہ کا ذمے دار کون ہوگا ؟

03: اگر ماضی میں دی گئی طلاق واقع ہوچکی تھی تو عدت کا کیا طریقہ کار اور وقت متعین ہوگا؟

04: اگر ماضی میں دی گئی طلاق شرعیت محمدی کے عین مطابق واقع ہوچکی تھی تو اس کا کفارہ(آسان کفارہ) کیا ادا کرنا ہوگا ؟

05: موجودہ حالت جس میں شوہر اپنی ہر طرح کی ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر ہو اور طلاق دینے کا کہہ  کر انکاری ہوجاتا ہو  اس بابت شرعیت محمدی کا   کیا  حکم ہوگا ؟

06 : موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا از خود کسی سے نکاح کیا جاسکتا ہے ،اس بابت شرعیت محمدی کے کیا احکامات ہوں گے؟

جواب

۱۔واضح رہے  کہ طلاق غصہ کی حالت میں ہی دی جاتی ہے ،خوشی میں کوئی طلاق نہیں دیتا ، غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق بھی شرعا واقع ہوجاتی  ہے،لہذا  یہ کہنا کہ غصہ  کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، شرعا  درست نہیں ،لہذا صورت مسؤلہ میں  اگر واقعۃ سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو تین طلاقیں دےدی  تھیں   تو  اس وقت تینوں  طلاقیں واقع ہوچکی تھیں   ، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکے تھے ، اس کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا بالکل ناجائز اور حرام تھا، لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے  ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں۔

۲ ۔تین طلاقوں کے بعد سائلہ اور اس کے شوہر دونوں کے ذمہ لازم تھا کہ وہ کسی مستند عالم دین سے مسئلہ معلوم کرتے ،یا کسی مستند دار الافتاء سے فتوی لیتے ،لہذا اس سلسلے میں ہر شخص اپنی  لاپرواہی   کی حد تک قصور وار ہے جس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

۳۔سائلہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی    عدت مکمل تین ماہوریاں  اگر حمل نہیں ہے،اگر حمل  ہے تو بچہ کی پیدائش تک گذارچکی ہے  تو عدت ختم ہوگئی ہے ۔

۴۔  سائلہ  نے طلاق کے بعد  شوہر  کے ساتھ جتنا وقت گذارا ہے اس پرنادم ہوکر توبہ و استغفار کرے  ،یہ توبہ و استغفار  ہی اس گناہ کا کفارہ ہے ۔

۵،۶۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوگیا  کہ اگر سائلہ کے شوہر نے وقعۃ  سائلہ کو تین طلاقیں دےدیں تھی تو سائلہ کا نکاح ختم ہوچکاہے ،لہذا عدت کے بعد سائلہ دوسری جگہ  شرعا نکاح کر سکتی ہے،البتہ سائلہ کے لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ دوسری جگہ نکاح سے قبل شوہر سے تحریری طلاق لے لے یا کسی متعلقہ قانونی محکمہ سے طلاق کا سرٹیفکٹ حاصل کرکے دوسری جگہ نکاح کرے،تاکہ آئندہ کے اعتبار سے قانونی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 229، 230]

وفي حاشية ابن عابدين :

"ويقع الطلاق من غضب خلافا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش."

(رد المحتار3/ 244ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

(عالمگیری، ج ۱،ص ۴۷۳، ط: رشیدیہ)

وفي الدر المختار  :

"(والموطوءة بشبهة) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء، وللموطوءة بشبهة أن تقيم مع زوجها الأول وتخرج بإذنه في العدة؛ لقيام النكاح بينهما، إنما حرم الوطء حتى تلزمه نفقتها وكسوتها، بحر، يعني إذا لم تكن عالمةً راضيةً كما سيجيء ... (وإذا وطئت المعتدة بشبهة)  ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى) لتجدد السبب (وتداخلتا، والمرئي) من الحيض (منها، و) عليها أن (تتم) العدة (الثانية إن تمت الأولى) وكذا لو بالأشهر، أو بهما لو معتدة وفاة".

و في الرد:

"(قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لاتجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثًا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لاتستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرًا طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال، ثم وطئها في العدة عالمًا بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لايقع فيها طلاق آخر ولاتجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر".

(3 / 518 ط: سعید)

وفي الدر المختار:

"(و) مبدؤها (في النكاح الفاسد) بعد التفريق من القاضي بينهما، ثم لو وطئها حدّ، جوهرة وغيرها، وقيده في البحر بحثا بكونه بعد العدة لعدم الحد بوطء المعتدة (أو) المتاركة أي (إظهار العزم) من الزوج (على ترك وطئها) بأن يقول بلسانه: تركتك بلا وطء ونحوه، ومنه الطلاق وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا، لا مجرد العزم لو مدخولة وإلا فيكفي تفرق الأبدان".

و في الرد:

"قلت: ولم أر من صرح بمبدإ العدة في الوطء بشبهة بلا عقد. وينبغي أن يكون من آخر الوطآت عند زوال الشبهة، بأن علم أنها غير زوجته، وأنها لاتحل له إذ لا عقد هنا فلم يبق سبب للعدة سوى الوطء المذكور كما يعلم مما ذكرنا، والله أعلم".

(3 / 522 ط: سعید)

وفي المبسوط للسرخسي:

"أن ما يحتاج المرء في الحال لأداء ما لزمه يفترض عليه عينا علمه كالطهارة لأداء الصلاة فإن أراد التجارة يفترض عليه تعلم ما يتحرز به عن الربا والعقود الفاسدة، وإن كان له مال يفترض عليه تعلم زكاة جنس ماله ليتمكن به من الأداء، وإن لزمه الحج يفترض عليه تعلم ما يؤدي به الحج ."

(30/ 260الناشر: دار المعرفة - بيروت)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144307102077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں