بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشروط تین طلاق کا حکم اور تحکیم کا مشورہ


سوال

میرا نکاح  ماموں کے بیٹے سے ہوا تھا ،دو تین ماہ بعد مجھے اس کے نشہ آوری کا پتہ چلا ،اس کے بعد وہ نشہ کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم میں بھی آگے نکلتا رہا ،جب میں  نے اپنے شوہر کو ان برے کاموں سے رکنے کو کہا اور کچھ تلخ کلامی ہوئی  تو اس نے کہا کہ "میں نے اگر منشیات کو ہاتھ بھی لگایا تو تم میرے پر تین بار طلاق ہو"،لیکن وہ اس سے باز نہیں آیا ،بلکہ بدستور نشہ کرتا رہا ،وہ ایک بلوچ لڑکے کو گھر لاتا تھا ،اور کمرے میں اس کےساتھ  سوتا تھا ،اس کا سارا ریکارڈ  آس پاس کے تھانہ والوں کو پتہ ہے ،جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ "اگر منشیات استعمال کی تو تم مجھ پر تین بار طلاق ہو" اور اس کے بعد بھی آپ نے منشیات استعمال کی ہیں تو کہتا ہے کہ آج سے ہم بہن بھائیوں کی طرح رہیں گے ،میرے اب دو بچے بھی ہیں ،اس طرح انہوں نے مجھے کئی بار طلاق دی ہے ،اس نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ" اگر تم اپنی ماں کے گھر گئی تو تمہیں طلاق ہے "میں تو اس کے بعد ماں کے گھر بھی گئی ہوں ،ابھی دو سال سے یہ جیل میں تھے تو میں اپنی ماں باپ کے گھر رہنے چلے گئی تھی ،یہ چوری اور ڈکیتی اور منشیات فروش کے عادی مجرم ہیں ،خرچہ بھی میں اپنی ماں سے لیتی تھی ،ابھی دو سال بعد جیل سے آئے ہیں ،مجھے پریشان کر رہے ہیں ،کہہ رہے ہیں کہ "تم آج بھی میری بیوی ہو "حالاں کہ وہ مجھے کئی بار طلاق دے چکے ہیں ،میں ان سے نفرت کرتی ہوں ،مجھ پر تشدد بھی بہت کیا ہے ،میں اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی ہوں ،مجھے نفقہ بھی نہیں دیا ہے ،ابھی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے ،آپ مجھے بتائیں کہ میں گواہ کہاں سے لاؤں ،میاں بیوی کے درمیان تیسرا کون ہوتا ہے ،نیز مجھے ان کے ساتھ رہنے میں جان کا خطرہ بھی ہے ،آپ شرعی فیصلہ بتائیں کہ طلاقیں ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگر واقعۃ سائلہ کے شوہر نے یہ کہا تھا کہ "میں نے اگر منشیات کو ہاتھ بھی لگایا تو تم میرے پر تین بار طلاق ہو"تو پھر  منشیات استعمال کرتے ہی سائلہ  پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں تھیں  ،نکاح ختم ہو گیاتھا،سائلہ کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں تھا ،سائلہ کو چاہیے کہ اپنے اس فعل پر خوب توبہ و استغفار کرے ۔سائلہ چوں کہ اپنے شوہر سے دو سال سے جدا ہی ہے   ،لہذا دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

اگر سائلہ کا شوہر  اپنے قول سے  انکاری ہے تو  اس صورت میں میاں اور بیوی دونوں پر لازم ہے کہ کسی مستند مفتی یا عالم دین کو فیصل مقرر کریں پھر وہ فریقین کا بیان سن کر شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیں اس پر دونوں عمل کریں ،فیصلہ تک سائلہ اپنے شوہر سے علیحدہ ہی رہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔"

(الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما : 1 / 420 ، ط : دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير۔"

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ و فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ، ج:1، ص:473، ط:رشیدیہ)

البحر الرائق  میں ہے:

"وأما في الاصطلاح فهو تولية الخصمين حاكما يحكم بينهما وركنه اللفظ الدال عليه مع قبول الآخر۔"

(کتاب القضاء باب التحکیم ج 7/24ط: دار الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں