بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق اور مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں کتنا مہر کا لازم ہونا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے نکاح کو 6 سال ہوگئے ہیں، ان چھ سالوں کے دوران میری بیوی مسلسل موبائل فون اور  دیگر ذرائع کے ذریعہ سے نامحرم مردوں کے ساتھ تعلقات بناتی رہی ہے،  بار ہا سمجھانے کے بعدوہ نہیں سمجھی، کئی بار قرآن پر ہاتھ  رکھ کر قسم بھی اٹھائی  کہ دوبارہ  ایسا نہیں کروں گی، اس  سب کے باوجود وہ بار بار موبائل فون پر باتیں کرتی رہی اور ایک بار نا محرم کے ساتھ پکڑی بھی جا چکی ہے، میری طرف سے رشتہ سنبھالنے کی پوری کوشش کے باوجود وہ باز نہیں آتی اور یہ حرکات بار بار کرتی رہی؛  اس لیے تقریباً 20 دن قبل میں نے اس کو ان کے والدین کے گھر بھیجا اور اس کے بعد اپنے والدین، دادی، اور  چچاؤں کی موجودگی میں میں   نے  کہاکہ  "یہ مجھ پر طلاق ہےثلاثا طلاق کے ساتھ" (پشتو میں "دا  پہ ما ثلاثا طلاقہ دہ") یہ تقریباً 10 بار میں نے بولا ۔

اب سوال یہ ہے کہ:

1-کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

2-  بوقتِ  نکاح مہر مقرر نہیں ہوا تھا، اب طلاق کے بعد مجھ پر کون سا مہر لازم ہے؟

3-  میرے خاندان کے بڑے مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں کہ آپ اسے رکھ لو، کیا میرے لیے یہ جائز ہے؟ اور کیا میرے بڑوں کے لیے مجھ پر یہ زبردستی کرنا ٹھیک ہے؟ اور جو چھ سال اس نے یہ حرکتیں کیں اور خود مانتی بھی ہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ٹھیک تھا، اس کی کیا سزا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں :1)سائل  کی بیوی پر شرعًا تینوں طلاقیں واقع  ہو گئیں،  سائل کی بیوی سائل  پر حر متِ  مغلظہ کے  ساتھ  حرام ہوگئی ہے اور  نکاح ختم ہو گیا، اب  رجوع جائز نہیں اور  دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

2) مطلقہ عدت  (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو  بچے  کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔  

3)طلاق کے بعد مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں مہر مثل( یعنی لڑکی کے والد کی خاندان کی عورتوں کے مثل) سائل پر دینا لازم ہے۔ 

4)طلاقِ مغلظہ کےبعد  مطلقہ کا اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ خاندان کے بڑوں  کا  سائل پر ساتھ رکھنے کے لیے زبردستی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور چھ سال تک مطلقہ جن افعال میں مبتلارہی اس پر  مطلقہ تو بہ واستغفار کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرّۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بھا، ثمّ یطلقھا أو یموت عنھا."

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة، کتاب الطلاق  ص:۴۷۳  ج/۱، مکتبہ رشیدیہ) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و كذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا (أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها إذا لم يتراضيا على شيء) يصلح مهرا (وإلا فذلك) الشيء (هو الواجب."

(باب المہر، ص/109، ج/3، ط/سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الحرة (مهر مثلها) الشرعي (مهر مثلها) اللغوي: أي مهر امرأة تماثلها (من قوم أبيها) لا أمها إن لم تكن من قومه."

(باب المهر، ص/137، ج/3، ط/سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"و قوله تعالى: {و لاتعاونوا على الإثم و العدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورۃ المائدہ، آیت/2، ص/296، ج/3، ط/ دار إحیاء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں