بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کو ایک طلاق سمجھنا


سوال

میری شادی تقریبا دو سال پہلے ہوئی تھی، ان دو سالوں کے دوران میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ مسائل پیدا ہوئے جہاں وہ اپنے لیے الگ گھر / مزید کمروں پر اصرار کر رہی تھی۔ اس نے میری ماں، بہن اور بھائی کے ساتھ میرے گھر میں نہ رہنے کی ضد بھی کی، کچھ عرصہ تک توحالات ٹھیک رہے لیکن رشتے بگڑ گئے اور وہ ان کا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی، میں نے اسے ڈیڑھ سال تک  سمجھانے کی کوشش کی کہ شادی کا ایک مقصد اولاد پیدا کرنا اور خاندان بنانا ہے لیکن وہ قائل نہیں ہوئی۔ بات اتنی آگے بڑھی کہ ہم الگ ہونے پر راضی ہو گئے اور ہم نے منسلکہ دستاویز پر دو گواہوں کے سامنے دستخط کر دیے، یہ نکاح نامے کی تحلیل تھی اور ضروری کاروائی کے لیے یونین کونسل میں جمع کرائی گئی ، اگرچہ میرا ارادہ تھا کہ دستایز پر ایک  طلاق لکھوں لیکن میری بیوی کے وکیل نے کہا کہ اگر آپ ایک بار لکھیں گے تو یونین کونسل قبول نہیں کرے گی، اس لیے میں نے تین بار لکھنے پر راضی ہوا۔ اب میری بیوی کہہ رہی ہے کہ وہ بدل گئی ہے اور صلح کرنا چاہتی ہے اور تین بار لکھنے کے باوجود اس پر صرف ایک بار غور کیا جائےاور ہمارے پاس صلح کے لیے تین ماہ کا وقت ہے اور ہم دوبارہ اکٹھے ہو جائیں گے۔

وہ یہ بھی اصرار کرتی ہے کہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی عدت گزارنے کے لیے شوہر کے گھر ہی رہے۔ اور اسے وقت نہیں دیا گیا تھا اس لیے طلاق کو ایک مرتبہ سمجھا جائے گا۔ وہ مزید کہتی ہے کہ تین طلاق کا تصور خلافتِ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا اور اس سے پہلے تین طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا اور اسے صرف ایک مرتبہ سمجھا جاتاتھا جو ہمارے حالات میں بھی غالب ہونا چاہیے۔ کیا ہماری طلاق ہوگئی ہے یا سے ایک سمجھا جائے گا اور ہم رجوع کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم، اَحادیثِ  مبارکہ، اَقوالِ  صحابہ کرام اور  چاروں ائمہ کرام کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے  یا علیحدہ علیحدہ مجلس میں تین طلاقیں دے،  بہر صورت تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی  ہے اور  دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی ۔ یہ حکم قرآن، حدیث و اجماع سے ثابت ہے اور اس پر ائمہ اربعہ کا  اتفاق ہےکہ اکھٹی دی گئی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا صریح  گم راہی ہے، ایسے فتوی پر عمل کرنا قطعًا ناجائز ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں جب سائل نے تین طلاق والے طلاق نامہ پر دستخط کردیے تو اس سے سائل کی بیوی سائل پر حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی  اور نکاح ختم ہو گیا ، اس کے بعد  دوبارہ رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔

مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔     

            ہاں البتہ عدت گزارنے کے بعد  اگر مطلقہ  کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کر لے  اس کے بعد وہ دوسرا شخص اس  کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر(سائل) سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(کتاب الطلاق، ص/233، ج/3، ط/سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بها، ثمّ یطلّقها أو یموت عنها."

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحلّ به المطلقة، کتاب الطلاق، ص:۴۷۳  المجلد الأوّل، مکتبه رشیدیه)

سنن ابي داؤد ميں هے:

"عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم."

(باب فی اللعان، ص/324، ج/1، ط/رحمانیہ) 

صورتِ  مسئولہ میں مطلقہ یعنی  سائل کی بیوی پر سائل کے گھر میں ہی عدت گزارنا واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(فصل فی الحداد، ص/536، 537، ج/3، ط/سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں