ایک شخص کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی،پانچویں دن بچے کی وفات ہوئی، وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد میاں بیوی میں جھگڑا ہوں،میاں نے بیوی کو مارا اور بیوی کو ان الفاظ ’’میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی،طلاق دی‘‘ سے طلاق دی، اب سوال یہ ہے۔
1۔ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟
2۔اگر طلاق واقع ہوچکی ہے،تو عدت کی مدت کیا ہوگی۔
3۔کیا اس شوہر سے دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے؟اگر گنجائش ہے،تو دوبارہ نکاح کس طرح ہوسکتا ہے؟
4۔لڑکی کی عمر 30 سے 35 سال ہے،کیا پہلے شوہر سے نکاح کے جوازکے لیے اتنی عمر کا لڑکا ضروری ہے؟
5۔شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیےصرف نکاح کافی ہے یا ہمبستری بھی ضروری ہے؟ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد عدت گزارنا ضروری ہے؟
واضح رہے کہ شوہر جب اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے،تو اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے،اس سے دوبارہ رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں ہوتی،اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے،تو بیوی اس شوہر کی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے،دوسرے شوہر سے ازدواجی(ہمبستری کا) تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا وفات پاجائے،تو بیوی دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے،اگر بیوی صرف اس نیت سے دوسرا نکاح کرلے،تاکہ میرا پہلےشوہر سے نکاح کرنا جائز ہوجائے اور ازدواجی تعلق(ہمبستری کا) تعلق ہونے کے بعد دوسرے شوہر کو طلاق پر مجبور کرے یا اس شرط پر نکاح کرلے کہ ازدواجی(ہمبستری کا) قائم ہونے کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے گا، تو اس غرض سے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے،حدیث میں اس مرد اور عورت پر لعنت کی گئی ہے،البتہ اگر یہ عمل کرلیا،تو عورت کےلیے پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
1۔ان الفاظ سے بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوچکی ہے۔
2۔طلاق کی عدت تین ماہواری ہے،اگر حمل نہ ہو،تین ماہواری کے بعد عورت کی عدت ختم ہوجائے گی،عورت اگر حاملہ ہو اس کے عدت وضع حمل ہوگی۔
3۔اس شوہر سے دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے،البتہ بیوی اس شوہر کی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے،دوسرے شوہر سے ازدواجی(ہمبستری کا) تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے یا وفات پاجائے،تو بیوی دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
4۔ہر بالغ آدمی جو ازدواجی(ہمبستری کا) تعلق قائم کرنے پر قادر ہو، اس سے نکاح کرنا،اس کااپنے مرضی سے طلاق یا وفات ہونے کی صورت میں بیوی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
5۔دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد دوسرے شوہر سے ازدواجی (ہمبستری کا) تعلق قائم کرنا ضروری ہے، دوسرے شوہر سے ازدواجی(ہمبستری کا) تعلق کے بعد اگر عورت حاملہ ہو،تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی،اگر حاملہ نہ ہو،تو اس کی عدت تین ماہواری ہوگی۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: لعن رسول الله المحلل والمحلل له. رواه الدارمي."
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے محلل(بیوی کو پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے والا) اور محلل جس کے لیے حلال کی گئی دونوں پر لعنت فرمائی۔( مظاہر حق)
(كتاب النكاح، باب المطلقة ثلاثا، الفصل الثانی، 982/2، ط: المكتب الإسلامي)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(عن عبد الله بن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل» ) : بكسر اللام أي للزوج الثاني بقصد الطلاق أو على شرطه (والمحلل له) : بفتح اللام أي الزوج الأول وهو المطلق ثلاثا قال القاضي: المحلل الذي تزوج مطلقة الغير ثلاثا على قصد أن يطلقها بعد الوطء ليحل للمطلق نكوحها، وكأنه يحللها على الزوج الأول بالنكاح والوطء، والمحلل له هو الزوج وإنما لعنهما لما في ذلك من هتك المروءة وقلة الحمية والدلالة على خسة."
(كتاب النكاح، باب المطلقة ثلاثا، 2149/5، ط: دار الفكر)
مبسوط سرخسي ميں هے:
"(قال) ولا تحل له المرأة بعد ما وقع عليها ثلاث تطليقات حتى تنكح زوجا غيره يدخل بها والطلاق...والمذهب عند جمهور العلماء أن الدخول بها شرط أيضا...حديث ابن عمر - رضي الله تعالى عنه - أن النبي صلى الله عليه وسلم قال «إذا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت بزوج آخر لم تحل للأول حتى تذوق من عسيلته ويذوق من عسيلتها» ومنه حديث عائشة رضي الله عنها «أن رفاعة القرظي رضي الله عنه طلق امرأته فأبت طلاقها فتزوجت بعبد الرحمن بن الزبير رضي الله عنه ثم جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت ما وجدت معه إلا مثل هذه وأشارت إلى هدبة ثوبها فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم ضبط نفسه فقال أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة فقالت نعم فقال لا حتى يذوق من عسيلتك وتذوقي من عسيلته. وعن عائشة رضي الله عنها «أن عمرو بن حزم رضي الله عنه طلق امرأته العميصاء رضي الله عنها ثلاثا فتزوجت بآخر فلما خلا بها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو ضعف حاله في باب النساء فقال صلى الله عليه وسلم هل أصابك فقالت لا فقال صلوات الله عليه لا تحلين لعمرو حتى تذوقي من عسيلته ويذوق من عسيلت...(قال) فإن تزوج بها الثاني على قصد أن يحللها للزوج الأول من غير أن يشترط ذلك في العقد صح النكاح ويثبت الحل للأول إذا دخل بها الثاني وفارقها فإن شرط أن يحللها للأول فعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - الجواب كذلك ويكره هذا الشرط وعند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - النكاح جائز ولكن لا تحل به للأول وعند محمد - رحمه الله تعالى - النكاح فاسد لقوله صلى الله عليه وسلم «لعن الله المحلل والمحلل له."
(كتاب الطلاق، ج: 6، ص: 8۔9، ط: دار المعرفة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز...وفي الأنفع: الصبي المراهق في التحليل كالبالغ إذا جامعها قبل البلوغ وطلقها بعد البلوغ لأن الطلاق منه قبل البلوغ غير واقع كذا في التتارخانية فسر المراهق في الجامع الصغير فقال غلام لم يبلغ ومثله يجامع جامع امرأته وجب الغسل عليها وأحلها للزوج الأول ومعنى هذا الكلام أن تتحرك آلته ويشتهي كذا في الهداية ولو كان الزوج الثاني مجنونا حلت للأول كذا في الخلاصة...وإذا طلقها ثلاثا ثم قالت: قد انقضت عدتي وتزوجت ودخل بي الزوج وطلقني وانقضت عدتي والمدة تحتمل ذلك جاز للزوج أن يصدقها إذا كان في غالب ظنه أنها صادقة كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، 473/1، ط: دارالفکر)
وفيه ايضاً:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، 526/1۔528، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101539
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن