4اکتوبر 2022 کو میرے شوہر نے تین طلاق کا طلاق نامہ بنوایا، میں نے اور میرے پہلے شوہر دونوں نے آفس میں جا کر طلاق کے ان کاغذات پر دستخط کیے تھے، کہ ہم ایک دوسرے سے طلاق لے رہے ہیں، پھر میں نے دوسرا نکاح دوسرے شخص کے ساتھ 18 دسمبر 2022 کو فون پر کیا، جس میں نہ ہمارے گھر سے کوئی گواہ شامل تھا اور نہ ان کے گھر سے، نکاح خواں نے ہم دونوں کے گواہوں کی موجودگی میں فون پر ہمارا نکاح کروایا تھا، اس وقت مجھے یہ علم نہ تھا کہ ہمارا یہ نکاح میری عدت کے اندر ہوا ہے، جب کہ بعد میں مجھے یہ احساس ہوا کہ شاید ہم نے غلط کیا ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ میری تین مہینے کی عدت پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی اس دوران تین مینسز آئے تھے، بل کہ دو مینسز آئے تھے، ایسی صورت میں میرا دوسرا نکاح کرنا درست ہوا یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو مجھے کیا کرنا ہوگا؟
وضاحت: فون پر نکاح اس طرح ہوا تھا کہ میں امریکہ میں تھی اور شوہر کینیڈا میں تھا اور نکاح خواں اور گواہ پاکستان میں تھے، جہاں سے انہوں نے فون پر ہمارا نکاح پڑھایا۔
صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے تین طلاق کا تحریری طلاق نامہ بنوایا، اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، دونوں کا نکاح ختم ہوگیا تھا اور وہ اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی، دوبارہ رجوع یا ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں تھی اور مطلقہ عدت ( تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کےلیے آزاد تھی، لیکن مطلقہ کا عدت کی مدت پوری ہونے سے پہلے فون پر نکاح کرنا درست نہیں، تھا، یہ نکاح دو وجہ سے منعقد نہیں ہوا۔
ایک وجہ یہ ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے طلاق کی عدت تین ماہواری کا گزارنا ضروری تھا،جب کہ سائلہ کے مطابق طلاق کے بعد صرف ڈھائی ماہ کے بعد نکاح کیا اور اس دوران تین حیض پورے نہیں ہوئے۔
دوم یہ کہ نکاح کے منعقد ہونےکے لیے لڑکا اور لڑکی کا ایک ہی مجلس میں نکاح کا ایجاب و قبول كرنا اوراسی مجلس میں دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، جب کہ مذکورہ نکاح میں مرد، عورت اور ان کے گواہان الگ الگ ملک میں تھے اور قاضی نے فون پر نکاح پڑھایا، لہذا فون پر کیا گیا نکاح اگر عدت کے بعد کیا جاتا، تب بھی منعقد نہیں ہوتا، الغرض یہ نکاح شرعا درست نہیں، مذکورہ نکاح کے بعد سے جتنا عرصہ مرد عورت ساتھ رہے، وہ سب ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا دونوں کو چاہیے کہ اس پر صدق دل سے توبہ و استغفار کریں۔ نیز اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو دونوں باہمی رضامندی سےدو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں، البتہ اس کے لیے کوئی دوسرے کو مجبور نہیں کرسکتا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز".
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط: دار الفكر)
وفیہ أیضاً:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع".
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج:1، ص:280، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"وأما بيان مقادير العدة، وما تنقضي به، فأما عدة الأقراء فإن كانت المرأة حرة فعدتها ثلاثة قروء لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228]".
(كتاب الطلاق، فصل في بيان مقادير العدة وما تنقضي به، ج:3، ص: 193، ط: دار الكتب العلمية)
وفیہ أیضاً:
"(وأما) الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول، أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس، لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود؛ فجعل المجلس جامعا للشطرين حكما مع تفرقهما حقيقة للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين حقيقة وحكما فلا ينتظم الركن."
(كتاب النكاح، فصل شرائط الركن أنواع منها شرط الانعقاد، ج:2، ص:232، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة...
"(قوله: وشرط حضور شاهدين) أي يشهدان على العقد.
"(قوله: حرين إلخ) قال في البحر: وشرط في الشهود: الحرية، والعقل، والبلوغ، والإسلام."
)كتاب النكاح، ج:3، ص:21/22، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100395
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن