بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد دوبارہ گھر بسانے ، مطلقہ اور بچوں کی پرورش اور نان و نفقہ کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی  ماہ سے میرے گھر میں ہم میاں بیوی کے درمیان ناراضگی ناچاقی اور لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے، میرا شوہر قرض کی زیادتی کے باعث ہر وقت غصے  میں رہتا تھا ،ایک روز صبح اٹھنے کے بعد میرے شوہر نے اپنی والدہ  کو اوپر بلا کر مجھے فیصلہ دے دیا اور اپنی ماں کے سامنے یہ کہا کہ "میں تجھے کیا دے رہا ہوں طلاق طلاق طلاق"، یعنی ایک سانس میں تین طلاقیں دے دیں،میں نے اس کے بعد عدت کی مدت تین ماہ دس دن گزارے ،محترم مسئلہ یہ ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں ،میں ان کے بغیر رہ نہیں سکتی ،ان کی خدمت کے لیے اپنے سابقہ شوہر کے گھر جاتی ہوں ان کا کام کاج کھانے پینے کا انتظام کرتی ہوں، میرے بچے بہت پریشان ہیں ، میرے بھی والد  کے علاوہ دنیا میں کوئی نہیں ہے والد بھی خاص کام کاج نہیں کرتے، میں طلاق کے بعد کام کرتی ہوں، اس کے بعد اپنے بچوں کے پاس تب  جاتی ہوں جب میرا سابقہ شوہر چلا جاتا ہے، وہاں میں سارا دن گزار کر پھر اپنے والد کے گھر چلی جاتی ہوں، میرے مسئلہ کا کیا حل ہے، شوہر بہت پچھتا رہا ہے، بہت سے لوگ کہ رہے ہیں کہ اس طرح ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو یہ کہا کہ "میں تجھے کیادے رہا ہوں طلاق طلاق طلاق" تو اس سے سائلہ  پر تیں طلاقیں واقع ہو گئیں اور سائلہ شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی، اب رجوع کی گنجائش نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا ، سائلہ  کی عدت  تین ماہ دس دن نہیں تھی، بلکہ  اگر حمل نہ ہو تو پوری تین ماہواریاں  تھی، عدت  پوری کرنے کے بعد سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی، دوسرے مرد سے نکاح کے بعد اگر وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے یا سائلہ اس سے طلاق لے لے تو اس کی عدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہو گا، اور لوگوں کا یہ کہنا کہ اس طرح  کہنے سےایک طلاق ہوتی ہے بالکل  غلط ہے،تین طلاقیں خواہ ایک ساتھ دی جائیں یا الگ الگ مجلس میں دی جائیں ، بہر حال وہ تین ہی شمار ہوتی ہیں۔

سائلہ کے بچوں میں جس لڑکے کی عمر سات سال سے کم اور جس لڑکی کی عمر نو سال سے کم ہے  اس کا حقِ پرورش مذکورہ عمر پوری ہونے تک سائلہ کو حاصل ہے، البتہ ان بچوں کا خرچہ ان کے والد ہی کے ذمہ ہے، اور سائلہ اگر نفقہ کی محتاج ہے تو عدت مکمل ہونے کے بعد  اس کا خرچہ سائلہ کے والد کے ذمہ میں ہے ، اگر وہ سائلہ کا خرچہ نہیں اٹھائے یا معذور ہیں تو پھر سائلہ مجبوری کی صورت میں شرعی پردہ کے ساتھ اپنے نان و نفقہ کے لیے کام کاج پر نکل سکتی ہے۔

ہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

(وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا)

(قوله وطلاق البدعة) ما خالف قسمي السنة، وذلك بأن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو مفرقة في طهر واحد أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا،... وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاثا

(كتاب الطلاق،باب طلاق السنة3/ 468، ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] "

(کتاب الطلاق ،فصل: وأما حکم الطلاق البائن،3/187،ط:سعید)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:  

(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر

(قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى

(‌‌باب النفقة،3/ 612،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

«(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب...(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي

(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية

(كتاب الطلاق باب الحضانة 3/ 566 ط:سعيد)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

«(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن

(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة

(‌‌‌‌كتاب الطلاق،باب النفقة،3/ 614،ط:سعید)

فتاوى عالمگیریہ میں ہے:

«اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وعليه الفتوى والنصاب نصاب حرمان الصدقة هكذا في الهداية.»

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام1/ 564،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144304100426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں