بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد رجوع کرنے والے کا بائیکاٹ


سوال

میرے ایک عزیز نے بیوی کو  تین طلاق دے دیں،  پھر غیر مقلدین سے فتوی لے کر دوبارہ ساتھ  رہ رہا ہے، رشتہ داروں نے اس سے معاملات ختم کردیے ہیں، لیکن قطع تعلقی نہیں کی۔ ان کو تقریبات میں نہیں بلاتے، لیکن خود ملنے آجائے تو ان کی مہمانی کرلیتے ہیں۔ ان کے بچوں سے قطع تعلقی کرنا کیسا ہے اور ان سے قطع تعلقی کرنا کیسا ہے؟ نیز وہ گھر آکر بچوں کو گفٹ دیں تو کیا اس کو واپس کردیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ می٘ں آپ کے عزیز کا اپنی بیوی سے فوری علیحدگی اختیار کرنا لازم ہے ۔ اگر وہ علیحدگی اختیار نہ کریں تو انہیں خاندان اور برادری کے ذریعہ علیحدگی پر مجبور کرنا اور جب تک وہ علیحدگی اختیار نہ کریں ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا جائز ہے، جس میں ان کا تحفہ قبول نہ کرنا بھی شامل ہے۔ تاہم ان کے بچوں سے تعلقات منقطع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ  بچے اگر سمجھ دار  ہیں، والدین کے اس عمل کی حرمت کو جانتے ہیں اور اس کے باوجود وہ بھی اس پر راضی ہیں تو ان سے بھی احتیاط برتی جائے۔

المعجم الأوسط، ۵/۱۲۷، دار الحرمين – القاهرة:

"يا ابن مسعود، إنّ من أعلام الساعة وأشراطها أن تظهر المعازف والكبر، وشرب الخمور. يا ابن مسعود، إنّ من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنا». قلت: يا أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم. قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: نعم. قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذلك؟ قال: يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحدها طلاقها، فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما".

ترجمہ: (رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:) ۔۔۔ اے ابن مسعود! قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ زنا کی اولاد بکثرت ہوگی، میں نے (راوی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا) اے ابو عبدالرحمٰن کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا: جی ہاں! میں نے عرض کیا: اے ابو عبدالرحمٰن کیا قرآن ان کے درمیان ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں! میں نے عرض کیا: پھر یہ  کیوں کر ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے گا، پھر اس طلاق کا انکار کردے گا، اور اس سے تعلق قائم رکھے گا، چناں چہ جب تک وہ دونوں ساتھ رہیں گے وہ زنا کار ہوں گے۔

 

فتاوی شامی میں ہے:

"حكي أن رجلًا من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة". (۴/۸۰ ، سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

(عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل أن يهجر» ) بضم الجيم (أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة…قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك…وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق". (۸/۳۱۴۶-۳۱۴۷، دار الفكر) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109202094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں