بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد مہر اور جہیز کے سامان کے مطالبہ کا حق


سوال

میں مسماۃ ''ب'' کی اپنے شوہر سے جو مسمی'' ط ''ہے مندرجہ ذیل ترتیب سے طلاق ہو چکی ہے ، میرے شوہر نے واٹس اپ میسج کے ذریعے مجھے11جون2022ء کو میسج لکھ کر بھیجا کہ "طلاق  طلاق "اور اگلی گھر میں دوں گا ،اس کے بعد 9 جولائی 2022کو ہمارے درمیان رجوع ہوا، اس کے بعد 21 جون 2023 کو کہا آپ میرے گھر نہیں آئیں،  آپ میرے طرف سے آزاد ہیں میں نے آپ کو اپنے زندگی سے نکالا ہے میرے زندگی میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،یہ قصہ ختم کریں طلاق کی بدولت آپ کا اپنا راستہ اور میرا اپنا ، ہمارے درمیان جو تکرار شروع ہوئی تھی وہ دوسری  ناجائز لڑکی کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ہوئی تھی،  مذکورہ صورت مسئلہ میں جو  طلاق پہلی دو طلاق رجعی کے بعد دی گئی ہےآیا اس سے تیسری طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اگر طلاق ہو چکی ہے تو میرا اپنے  حقوق یعنی حق مہر،  جہیز وغیرہ مانگنے کا حق بنتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً درست ہے تو اس سے شرعاً سائلہ پر تینوں  طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، وہ اپنے شوہر  پر حر مت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اور نکاح ختم ہو گیا ہے، اب  رجوع یا  تجدید نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

مطلقہ عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

مذکورہ صورت میں مطلقہ حق مہر کے مانگنے کا حق رکھتی ہے، اور جہیز  کا سارا سامان اور زیورات جو شادی کے موقع پر لڑکی کو اس کے میکے سے ملے تھے وہ سب اس کی ملکیت ہیں، اسی طرح بری کا وہ سامان جو  (علاوہ زیورات کے ) شادی کے موقع پر شوہر اور اس کے گھر والوں سے ملا  تھا وہ بھی  سب لڑکی کی ملکیت ہے ۔البتہ جو سونا بری میں ملا تھااس میں تفصیل ہے کہ اگر دیتے وقت کسی بات کی وضاحت کر کے دیا تھا کہ یہ مالکانہ ہے یا عاریت ہے تو وضاحت کے مطابق عمل ہوگا۔اور اگر دیتے وقت کسی بات کی وضاحت کئے بغیر دیا تھا تو لڑکے کے خاندان کے عرف و رواج کو مد نظر رکھ کر ملکیت کا تعین کیا جائے گا ۔اگر مالکانہ  طور پر دینے کا رواج ہے تو لڑکی کا ہو گا اور اگر عاریۃً دینے کا رواج ہے تو لڑکے کو واپسی لینے کا حق ہوگا ۔اور اگر کوئی واضح رواج نہیں تو پھر ظاہراً  چونکہ لڑکی کو دیا گیا ہے اس لئے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے لڑکی کی ملکیت شمار ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق جو بھی مطلقہ کا سامان ہے وہ پورا پورا اس کو ادا کرنا ضروری ہے اور وہ اس کے مانگنے کا حق رکھتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ وثنتین فی الامة، لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا، ویدخل بھا، ثم یطلقھا او یموت عنھا"

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة، کتاب الطلاق، ص:473، ج:1، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيه عن المبتغى (جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها

(قوله ليس له الاسترداد منها) هذا إذا كان العرف مستمرا أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية".

(کتاب النکاح، باب المهر ، ج:3، ص:155، ط:سعید) 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى

وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".

(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں