میں نے 2017ء میں اپنی بیوی کو بحث و تکرار کے دوران یہ الفاظ کہے "طلاق دی" اور گولیاں کھا رہا تھا ،بہر حال سنجیدگی میں نہیں دی تھی ،اس کے بعد میں نے رجوع کر لیا تھا ،پھر 20 اکتوبر 2021ء کو بحث و مباحثہ اور جھگڑے کے دوران دوسری طلاق دی الفاظ یہ تھے "میں نے طلاق دی" لیکن میں نے بیوی سے کہا تین ماہ تک تم رجوع کرنا چاہو تو رجوع کر لینا (یعنی میرے ساتھ رہنا چاہو تو رہ لینا) پھر اسی رات اور مغرب کے دوران میرے سسر نے مجھ سے تیسری طلاق کا مطالبہ کیا تو میں نے تیسری طلاق دے دی،اس کے بعد پھر میں نے تین طلاق والے طلاق نامے پر دستخط کر دیے ،آیا اب شریعت میں کوئی گنجائش ہے ساتھ رہنے کی؟
صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اب سائل کی زوجہ سائل پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، مطلقہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب مطلقہ اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے یا عورت خود طلاق لے لے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
"فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما أن يتراجعا إن ظنا أن يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون"۔
}البقرة: 230{
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".
(کتاب الطلاق،ج:3/ص:473، ط: ماجدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن