بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کا حکم


سوال

اگر کوئی اپنی بیوی کو دو بار طلاق کا کہے کہ میں نے تجھے طلاق دیا اور ایک بار کہا تجھےچھوڑ دیا تو فارغ ہے آج سے، اور ایک بار کہا آج تیرا اس گھر میں آخری دن ہے، اب تو اپنےگھر جا، تجھے خلع دے دوں گا،  کیا اس سے طلاق ہو گی؛ کیوں کہ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی ، مجھے اس بارے میں پتا کرنا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کے اپنی بیوی سے یہ کہنے سے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ اور تیسری بار یہ کہنے سے کہ ’’تجھے چھوڑ دیا تو فارغ ہے آج سے‘‘  اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؛ اور  تینوں طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے  یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات". (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية)

ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وعدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ (الطلاق: 4) (باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں