بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں کہیں،جس کے بعد پتہ چلا ،کہ بیوی حاملہ تھی، مجھے کہا گیا کہ یہ طلاق نہیں ہوئی ،میں نے دوبارہ رجوع کر لیا ،تو پتہ چلا کہ حمل نہیں ہے،اور ماہواری کے دن آگے بڑھ گئے تھے، تو کیا اس صورت میں رجوع ہو گیا یا طلاق ہو گئی، اور اگر طلاق ہو گئی ہے تو کیا عدت کا وقت گزارنا ہوگا؟ اور طلاق دینے کے شرعی احکام کیا ہیں کیونکہ یہ بھی بات سامنے آئی ہے ،کہ طلاق ایک ہی دفعہ میں تین بار کہنے سے ایک ہی تصور کی جاتی ہے،اور طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ تین مہینوں میں مختلف اوقات میں الگ الگ طلاق دی جاتی ہیں، جس میں میاں بیوی پہلا مہینہ ساتھ رہتے ہیں، اور اسی دوران اگر بات بن جاتی ہے، تو ٹھیک ہے ورنہ آگے باقی طلاقیں تین مہینے کی مدت میں دی جائیں گی،ہمارا دین اس بارے میں کیا کہتا ہے، گزارش ہے کہ جلد رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ طلاق کی بہترین صورت یہ ہے کہ  مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  ( پاکی) میں طلاق دے،  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں ،  پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے،  اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے، کہ مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  (پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم  نہ کیا ہو ، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے ،  جب دوسرا طہر (پاکی) آئے ، تو  اس میں دوسری طلاق دے ،  اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں  مرد اور عورت  کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔لیکن اگر کوئی شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدے تو باجماع امت تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور یہ شخص گناہگار ہوتا ہے، تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا قرآن ،حدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے ۔نیز طلاق حالت حمل میں دی جائے یا حالت حیض میں ،بہر صورت واقع ہوجاتی ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب  سائل نے  اپنی بیوی کو تین طلاقیں کہیں، تو اس سے سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی تھیں،سائل کا نکاح ختم ہوچکاہے، عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب رجوع یاتجدید نکاح کرکےساتھ رہنے کی گنجائش   نہیں ہے، بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت)  گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،البتہ عدت گزارنے کے بعد بیوی اگر کسی دوسری جگہ شادی کرے، اور اس دوسرے شوہر سے صُحبت (جسمانی تعلق) ہو جائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے  ،یا بیوی طلاق لے لے  ،یا شوہر کا انتقال ہو جائے،تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر  (سائل) سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے، اس کے بغیر دونوں کا آپس میں نکاح کر نا  اور ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها."

( کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط: رشدیه)

فتح القدير  میں ہے:

"(الطلاق على ثلاثة أوجه: حسن، وأحسن، وبدعي. فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها) ؛ لأن الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلقها الرجل ثلاثا عند كل طهر واحدة؛ ولأنه أبعد من الندامة وأقل ضررا بالمرأة ولا خلاف لأحد في الكراهة."

(کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ج:3، ص:466،ط: دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

"(قوله وطلاق الحامل يجوز عقيب الجماع؛ لأنه لا يؤدي إلى اشتباه وجه العدة) إن اعتبر حاظرا؛ ولأنه زمان الرغبة في الوطء لكونه غير معلق؛ لأنه اتفق أنها قد حبلت أحبه أو سخطه فبقي آمنا من غيره فيرغب فيه لذلك، أو لمكان ولده منها؛ لأنه يتقوى به الولد فيقصد به نفعه."

(کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ج:3، ص:478، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں