بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد مطلقہ بیوی کو ساتھ رکھنے پر مجبور کرنا


سوال

میرے شوہر نے مجھے پانچ سال پہلے تین طلاقیں دی تھیں یہ کہہ کر  کہ: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں " اور اس وقت سے  میں الگ رہ رہی ہوں، ابھی میرا سابق  شوہر مجھے ساتھ رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔

تو کیا ہمارے لیے ایک ساتھ رہنا جائز ہے ؟ اور شوہر کا اس طرح مطالبہ کرنا  شرعا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بصدق  واقعہ صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے اسے پانچ سال قبل  مذکورہ الفاظ  " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں " سے اسے تین مرتبہ طلاق دی تھی، تو اس صورت میں سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،  اور وہ شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  شوہر کے لیے اس سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا،  تاآنکہ سائلہ نکاح نہ کرلے، اور وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے بعد اس کا شوہر اسے طلاق یا خلع نہ دے دے، یا  شوہر کا انتقال نہ ہوجائے، اور سائلہ کی عدت مکمل نہ ہوجائے، اس سے قبل  سائلہ کو ساتھ رکھنے  پر مجبور کرنا سابق شوہر کے لیے جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"٦٥٩٠: وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... ٦٥٩٥: ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات".

 (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق، ٤ / ٤٢٧ - ٤٢٩، ط: مكتبة زكريا بدیوبند الهند)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة"

( كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها. كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها. كذا في فتح القدير.  ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں