بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سانس میں " دے دونگا تجھے طلاق طلاق طلاق طلاق" کہنے کا حکم


سوال

 شوہر اپنی کمائی کی رقم اپنی بہن یا اپنے والد صاحب کے پاس رکھتا تھا،اپنی بیوی کو نہیں دیتا تھا، ایک مرتبہ بیوی نے کہاکہ جب میں گھر کے اندر موجود ہوں تو میرے پاس رقم رکھا کرو، گھر سے باہر والد صاحب یا بہن کو کیوں دے دیتے ہو ؟اس کے جواب میں شوہر نے بیوی سے کچھ کہا، بیوی نے جواب دیاکہ تو مجھے بھی یہاں کیوں رکھ رکھا ہے؟ چھوڑ دو مجھے بھی، اس کے جواب میں شوہر نے غصہ میں کہا:  "ہاں چھوڑ دوں گا تجھے،  دے دونگا تجھے طلاق طلاق طلاق طلاق"، تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

 اگر طلاق ہو چکی ہے تو عورت کابغیر حلالہ کے شوہر کے ہی گھر میں رہنا کیسا ہے ؟عورت کا کہنا یہ ہے کہ میں کہیں نہیں جاؤں گی، اور نہ حلالہ کروں گی، یہیں اپنے بچوں کے ساتھ رہوں گی، اور وہ تقریباً تین سال سے شوہر کو اپنے اوپر قدرت دیے بغیررہ بھی رہی ہے،نیز شوہر کو اب کیا کرنا چاہیے؟

(نوٹ: دے دونگا تجھےطلاق طلاق طلاق طلاق ،یہ ایک ہی سانس میں اس نے بیوی کو کہا ہے۔)

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اپنی بیوی کو تین سال قبل مخاطب کرکے جو الفاظ بولے تھے کہ "  دے دوں گا تجھے طلاق طلاق طلاق طلاق "اگر واقعۃً یہ تمام الفاظ ایک سانس اور ایک جملےمیں ادا کیے ہیں اور "دے دوں گا تجھے طلاق" کے بعد سانس نہیں توڑا تھا تو ایسی صورت میں  اس کی بیوی پر کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،کیوں کہ یہ الفاظ آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں،اور شرعاًدھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی، میاں بیوی کا نکاح برقرار ہے، تاہم شوہر کو چاہیے کہ آئندہ کے لیے وہ اس قسم کے الفاظ سے پرہیز کرے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قالت لزوجها من باتو نميباشم فقال الزوج مباش فقالت طلاق بدست تو است مرا طلاق كن فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال ‌فلم ‌يكن ‌تحقيقا بالتشكيك.

في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل السابع في الطلاق بالالفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں