بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد ساتھ رہنے والوں کا جنازہ پڑھانا


سوال

میں امامِ  مسجد ہوں اور  میرے  محلے میں کچھ لوگ جو کہ حنفی دیوبندی ہیں،  مگر تین طلاق کے بعد غیر مقلدین سے فتوی  لے کر اپنی مطلقہ ثلاث بیویوں کو دوبارہ اپنے پاس بسا رہے ہیں،  میرا سوال یہ ہے کہ اگر ان میاں بیوی میں کوئی مر جائے تو کیا میرے  لیے ان کی نمازِ  جنازہ پڑھنا یا پڑھانا جائز  ہوگا؟ نیز ان کی اولاد میں سے کوئی مر جائے تو ان کی نمازِ  جنازہ اور ان کے والدین یا بہن بھائی جو کہ تین طلاق کے باوجود ان کے آپس میں اکٹھا رہنے کے حامی ہوں تو ان والدین یا بہن بھائیوں کی نمازِ  جنازہ کا کیا حکم ہوگا؟ 

جواب

ایک مجلس کی تین  طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، اس پر امت کا اجماع ہے، اس کے خلاف کوئی بات  قابلِ  قبول نہیں، لہذا  جو شخص تین طلاق کے بعد بھی  اپنی بیوی سے  علیٰحدگی   اختیار نہ کرتا ہو اور اس کے ساتھ رہتا ہو اس کے  خاندان والوں کی غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ ان کو سمجھا کر علیحدگی کروادی جائے اور ان کو گناہ کی زندگی سے بچایا جائے اور اگر کسی بھی صورت میں باز نہ آئیں تو ان سے قطع تعلق  کیا جائے تاوقتیکہ وہ اس سے باز آئیں، البتہ اس طرح کا شخص بھی کلمہ گو مسلمان ہے، لہٰذا اس کی نمازِ  جنازہ پڑھی جائے گی، لیکن اس میں پیشوا  اور  بڑے لوگوں کو شامل نہیں ہونا چاہیے؛ تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔

لہذا  اگر آپ اپنے محلہ کے امام ہیں تو بہتر ہو گا کہ آپ اُن کے انتقال کی صورت میں اُن کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں، اور اُن کی اولاد، والدین اور بہن بھائیوں  کو چاہیے کہ وہ ان کے اس گناہ میں اُن کی حمایت سے باز آئیں، اگر وہ باز نہ آتے ہوں اور اپنے فاسد موقف  پر ہی  قائم رہتے ہوں تو اُن کے ساتھ بھی اُن کے والدین والا معاملہ کیا جائے گا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں