بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد مسلک تبدیل کرنا


سوال

میں نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں غصے کی حالت میں مورخہ 20 اپریل 2021 کو دی تھی، مجھے دوست احباب اور رشتے دار مشورہ دے رہے ہیں کہ کسی اہلِ حدیث عالم سے فتویٰ لے کر رجوع کرلوں۔ آیا کہ اہل حدیث عالم سے فتویٰ لے کر رجوع کیا جاسکتا ہے؟  اور کیا اس عمل سے میں حنفیت یا اسلام سے خارج ہوسکتا ہوں؟ کیوں کہ عزیز یہی کہتے ہیں کہ کون سا اس عمل سے حنفیت اور اسلام سے خارج ہو جاؤ گے!  لہذا اس معاملے میں میری شرعی راہ نمائی فرمائیں، میں بے حد پریشان ہوں، میرے دو بچے بھی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جمہور صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ،اور ائمہ مجتہدین کے نزدیک  اکٹھی دی گئیں تینوں طلاقیں تین طلاقیں ہی ہوتی ہیں، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، البتہ روافض اور غیر مقلدین کے نزدیک ایک ہوتی  ہے، اور جمہور کے مقابلے  میں ان کا یہ قول معتبر نہیں ہے۔ لہذا اگر سائل نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یہ تین ہی شمار ہوں گی، اب اگر وہ اس مسئلہ کی خاطر اپنا مسلک تبدیل کرتا ہے تو ایمان سے خارج تو نہیں ہو گا، لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیاوی اغراض کی خاطراپنے مذہبِ حقہ کو چھوڑتا ہے ،تو موت  کے وقت ایمان کے سلب ہونے کا خطرہ ہے اور  عدالت ایسے شخص کو تعزیری سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر، سراجية".

"مطلب فيما إذا ارتحل إلى غير مذهبه

(قوله: ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعًا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلاً من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة، ولو أن رجلاً برئ من مذهبه باجتهاد وضح له كان محمودًا مأجورًا."

 (کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب فیما إذا ارتحل إلى غير مذهبه، ج4/80، مکتبه:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں