بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاقیں دینا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاقوں کو تین طلاقیں قرار دینے کی تفصیل


سوال

تمام گھر والے شادی سے واپس آئے تھے،کمرے میں سامان بکھرا ہوا تھا،شوہر کمرے سے باہرجانے لگا تو بیوی نے کہا کہ میں تھکی ہوئی ہوں،آپ میری مد د کریں،تو شوہر پھر بھی باہر جانے لگا،بیوی نے روکا اور آپس میں تکرار ہوگئی،شوہرنے تین بار یہ الفاظ کہے کہ :"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔"،اب اس سے ایک طلاق ہوئی یا تین؟شوہر کے والد کا کہنا ہے کہ ایک طلاق ہوئی ہے،میں نے یہ پڑھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعزیری طور پر تین طلاق کو تین شمار کیا تھااور چاروں ائمہ نے اس کو لیا تھا،حالاں کہ شریعت تو وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی،پھر اس کو تین طلاق کیسے کہا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ:میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔"،تو ان الفاظ کے کہنے سے از روئے قرآن و حدیث اور صحابہ کرام ،تابعین اور تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ امام اعظم ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی، امام احمد بن حنبل  کے نزدیک تین طلاقین  واقع ہوگئیں اور وہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب رجوع جائز نہیں ہے اور دوبارہ آپس میں نیا نکاح بھی نہیں ہوسکتا،مطلقہ اپنی عدت(مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا خلاف سنت اور سخت گناہ ہےسنن نسائی میں حضرت محمود ابن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ" ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ہوئے اور یہ بات ارشاد فرمائی کہ "کیا اللہ کی کتاب کو کھیل تماشایہ بنایا جارہا ہے جب کہ میں تم لوگوں کے درمیان ابھی موجود ہوں؟"،لہذامذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس پر اللہ تعالی سے خوب توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔

مذکورہ شخص کے والد کا یہ کہنا ہر گز درست نہیں ہے کہ اس کے بیٹے کے تین دفعہ طلاق دینے کے باوجود ایک ہی طلاق ہوئی ہے،اور سائل کے یہ کہنا بھی محض غلط فہمی پر مبنی ہے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جاتا تھا،اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تعزیراً تین شمار فرمایا تھا،حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی تین طلاقیں تین شمار ہوتی تھیں،چنانچہ سنن دار قطنی میں واقعہ مذکورہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کے بعد فرمایاتھا کہ اگر میں نے اپنے نانا سے یہ نہ سنا ہوتا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دی ہوں یا تین طہروں میں تین طلاقیں دی ہوں تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوگی یہاں تک وہ دوسرے شوہر سے شادی کرلے ،تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔

جن  روایات میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں ان کا صحیح مطلب اور محمل یہ ہے کہ :دور نبوی اور دور صدیقی میں لوگوں کی دیانت کا معار بلند تھا،اس دور میں اگر کوئی شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو کہتا کہ تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے،اور وہ بعد والی دو طلاقوں سے تاکید کی نیت بیان کرتا تھا تو اس کی بات کو تسلیم کرکے ایک طلاق کا فیصلہ دیا جاتا تھا،دور فاروقی میں جب دیانت کے معیار میں کمی آگئی اور لوگ کثرت کے ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے اور تین طلاقیں دے کر ایک طلاق کی نیت کا دعوی کرنے لگے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےتاکید کی نیت والی بات قبول کرنے سے منع فرما دیا،اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا،چناچہ یہی مذہب جمہور صحابہ،تابعین،ائمہ کا ہے ،اس مسئلہ میں صرف اہل تشیع اور غیر مقلدین اختلاف کرتے ہیں،اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاقیں ایک ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے تین ہونے کا فیصلہ کیسے صادر فرماسکتے تھے؟نیز تین طلاقوں کے ایک ہونے کی روایات حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سے مروی ہیں جبکہ ان کا فتوی اس کے برخلاف تین طلاقوں کے تین طلاق ہونے کا تھا،تو اگر دور نبوی میں تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کا یہ مطلب ہوتا کہ ایک مجلس میں کوئی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اس کے باوجود اسے ایک شمار کیا جائے تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی روایت کے خلاف کیسے فتوی دیتے؟

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: " كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم ."

(کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،ج:2،ص:1099،ط:مطبعہ عیسی البابی الحلبی)

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"الخامس دعوى أنه ورد في صورة خاصة فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد في تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس في زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعى التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم وهذا الجواب ارتضاه القرطبي وقواه بقول عمر إن الناس استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة وكذا قال النووي إن هذا أصح الأجوبة الخ."

(کتاب الطلاق،باب من جوز الطلاق الثلاث،ج:9،ص:364،ط:دار المعرفۃ)

سنن نسائی میں ہے:

"أخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا ثم قال: «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، ألا أقتله؟"

(کتاب الطلاق،الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ،ج:6،ص:142،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیہ -حلب)

شرح معانی الآثار میں ہے:

"حدثنا إبراهيم بن مرزوق قال: ثنا أبو حذيفة قال: ثنا سفيان , عن الأعمش , عن مالك بن الحارث قال: جاء رجل إلى ابن عباس فقال: إن عمي طلق امرأته ثلاثا , فقال: «إن عمك عصى الله فأتمه الله وأطاع الشيطان فلم يجعل له مخرجا» . فقلت: كيف ترى في رجل يحلها له؟ فقال «من يخادع الله يخادعه»"

(کتاب الطلاق،باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا،ج:3،ص:57،ط:دار عالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں